مضامین

ڈی آئی خان میں دہشتگرد سپاہ صحابہ کی حکومتی سرپرستی اور محرم میں دہشتگردی کا خطرہ

تحریر: آئی اے خان

پنجاب، بلوچستان اور فاٹا کا سنگم، خیبر پختونخوا کا دوسرا بڑا شہر ڈیرہ اسماعیل خان عرصہ دراز سے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت انتظامیہ کی جانب سے شہر میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے اکثر و بیشتر دعوے، بیانات، اعلانات اور اقدامات وقفے وقفے سے سامنے آتے رہے، مگر امن و امان کے دیرپا قیام کے لئے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کبھی سامنے نہیں آئی۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کے خلاف اقدامات کے نام کے نام پر جو کارروائیاں عمل میں لائی گئی اس میں حقیقی مجرمان اور ان کے سرغنوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے محض چھوٹے کارکنوں اور اجرتی قاتلوں کے خلاف کمزور شواہد کی بناء پر مقدمات قائم کئے گئے، جس کے نتیجے میں شہر کے حالات ہمیشہ ہی کشیدہ رہے۔ انتظامیہ کی جانب سے بنیادی ناانصافی یہ کی گئی کہ ایک جانب کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد گروہوں کو ایک فریق تسلیم کیا گیا اور شہر میں موجود ملت تشیع کو دوسرا فریق بناکر پیش کیا گیا۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تفریق عوام اور دہشت گردوں کے درمیان ہونے کے بجائے شیعہ و سنی کے درمیان ہوکر رہ گئی، اور اس عمل میں شہر کی آبادی کا اکثریتی حصہ یعنی امن پسند اہلسنت کی آواز دب کر رہ گئی اور کالعدم تنظیمیں ان کی نمائندہ بن کر سامنے آگئیں۔ 

دوسری ناانصافی ظالم اور مظلوم کے درمیان کسی قسم کی تمیز نہیں کی گئی، دن کے اوقات میں ملت تشیع کے جن گھروں سے جنازے اٹھے، رات کے اندھیرے میں حالات کو قابو کرنے کے نام پر انہی گھروں پر ضلعی پولیس نے چھاپے مار کر چادر و چار دیواری کی حرمت کو پامال کیا اور شہداء کے خانوادوں کو بوگس مقدمات میں پابند کیا۔ انتظامیہ کے رویے کا اندازہ کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ شہر کی گلیاں، کوچے تو ملت تشیع کے بے گناہ لہو سے سرخ ہوئے سو ہوئے، مگر ملت کے جو نوجوان پولیس کی کسٹڈی میں بھی تھے وہ بھی محفوظ نہ رہے، ڈیرہ جیل حملے میں ملت کے اسیر تکفیریوں کا نشانہ بنے تو میانوالی جیل میں صفدر بلوچ جیسے جوان پولیس تشدد سہتے سہتے شہادتیں نوش کرگئے۔
 
تیسری بڑی اور ناقابل برداشت ناانصافی جو ضلعی انتظامیہ نے ڈی آئی خان کے اہل تشیع کے ساتھ روا رکھی، وہ مجالس عزا یعنی منبر حسینی ؑ اور کالعدم جماعتوں کے فرقہ ورانہ جلسوں کے اسٹیج کو ہم وزن کرنے کی ناپاک اور ناکام کوشش ہے۔ ڈی آئی خان کی تحصیل پروآ میں ہونیوالے کالعدم سپاہ صحابہ کے جلسے کے دوران ملت تشیع کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی، مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر اور نعرے بازی کی گئی۔ جس کے خلاف انتظامیہ نے بادل نخواستہ کارروائی کرتے ہوئے جعلی ڈگری ہولڈر خلیفہ قیوم پر مقدمہ قائم کیا، اسی کے ردعمل میں جشن مولود کعبہ کے سالانہ اور روایتی جلسے میں فضائل اہل بیت علیہ السلام کو بھی مذہبی منافرت پر مبنی قرار دیکر جشن کے منتظمین پر مقدمات درج کرلئے گئے، جس کا واحد مقصد جشن مولود کعبہ کے پروگرام کو بھی انہی متنازعہ اجتماعات کی فہرست میں شامل کرنا تھا، کہ جن میں تفرقہ انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔
 
محرم الحرام کے موقع پر وفاقی و صوبائی حکومتیں سکیورٹی پلان تشکیل دیتی ہیں، جس کا اطلاق روٹ لیول پر ہوتا ہے، ضلعی سطح پر مذہبی منافرت پر مبنی اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے افراد پر پابندی کا نوٹیفکیشن عمومی طور پر سکیورٹی پلان کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کی زد میں عمومی طور پر ذاکرین اور تکفیری خطباء آتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں محرم الحرام کے نزدیک مورخہ 21 اکتوبر کو ضلعی انتظامیہ نے کالعدم سپاہ صحابہ کو پروآ منڈی گراؤنڈ میں نہ صرف کانفرنس کی اجازت دی ہے بلکہ اورنگزیب فاروقی، عطاء ذیشانی و دیگر افراد کو شہر میں داخلے و تقاریر کی اجازت بھی فراخدلی سے دی ہے۔ 

ضلعی انتظامیہ سے یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ دہشت گردی سے جھلسا حساس شہر، محرم الحرام کے نزدیک کالعدم جماعت کے اجتماع کا متحمل ہوسکتا ہے۔؟ محرم الحرام کے نزدیک اورنگزیب فاروقی اور ایام عزا میں الیاس گھمن جیسے مقررین کی ڈی آئی خان کو کتنی ضرورت ہے۔؟ کیا ضلعی انتظامیہ کے نوٹس میں نہیں کہ پولیس مقابلے میں مارے جانیوالے دہشتگرد ولید اکبر کی آخری رسومات کے موقع پر کالعدم جماعت کے نئے کارکنوں نے کیا قسمیں لیں تھیں اور کس کی قیادت پر اظہار اطمینان کیا تھا۔؟ کیا اورنگزیب فاروقی، الیاس گھمن وغیرہ کی تقاریر اور نظریات سے ضلعی انتظامیہ نابلد ہے۔؟ کیا انتظامیہ کی نظروں سے وہ وال چاکنگ بھی پوشیدہ ہے، جس میں واضح درج ہے کہ کراچی سے مہمان خصوصی، خصوصی ہدایات کے ساتھ آرہے ہیں، اگر کالعدم سپاہ صحابہ کے اس اجتماع میں دہشتگردی کا کوئی منصوبہ پروان چڑھا، یا اس اجتماع کے نتیجے میں سانحہ رونما ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا۔؟
 
یہاں ملت تشیع کی ان جماعتوں کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے، جن کے خیال میں ملی جماعتوں کو اس لئے متحرک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے ردعمل میں کالعدم تکفیری گروہ سرگرم ہوجاتے ہیں، جو اس خیال سے اجتماعات کی مخالف ہیں کہ انہی کو بنیاد بناکر تکفیری گروہ اجتماعات منعقد کرتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں ایسی کانفرنس کسی شیعہ جماعت کی جانب سے منعقد نہیں کی گئی، پھر کالعدم سپاہ صحابہ کی اس کانفرنس کے خلاف انہوں نے تحفظات کا اظہار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ محرم الحرام سکیورٹی پلان کے ساتھ
اگر ضلعی انتظامیہ متنازعہ شخصیات پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کرکے کالعدم گروہ کے سرکردہ افراد سے شہر کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی تو یقیناً اس میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔ نتائج کچھ بھی ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انتظامیہ کی روش نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button