مضامین

داعش کے حق میں وال چاکنگ؟ (خصوصی کالم)

تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
سب سے بڑا اور نقصان دہ دھوکہ وہی ہوتا ہے جو انسان اپنے آپ کو دیتا ہے۔ ہم بحثیت مجموعی مگر خوابوں کے سوداگر ہیں۔ چیزوں کو ان کی اصل کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتے۔ نعرہ زن ہوتے ہیں اور اپنے مطلب کے معاشرتی رویے کی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل ہی ظواہر پرست لوگ۔ سازشوں کی بو سونگھنے میں بھی ہم نے عالمی برادری کو مات دے رکھی ہے۔ جھوٹ کا کاروبار ہمیں خوب جچتا ہے، سچ کا سامنا کرنے سے کترانے والے لوگ۔
سچ بات پہ ملتا ہے یہاں زہر پیالہ
جینا ہے تو پھر جراتِ اظہار نہ مانگو
مشرقِ وسطٰی میں عالمی استعماری طاقتوں کا کھیل کوئی راز نہیں۔ اس کھیل میں عرب شہنشاہوں کا حصہ؟ وہ فرنٹ لائن پر ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ سعودی عرب نے امریکہ کو شام پر حملے کی دعوت دی تھی اور اس جنگ کے تمام اخراجات اٹھانے کی بھی پیشکش کی تھی؟ حال ہی میں قطر کے اعلٰی حاکم نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ شام اور عراق میں لڑنے والے ’’معتدل مزاج‘‘ جنگجوؤں کی حمایت کرتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا دہشت گرد معتدل مزاج بھی ہوا کرتے ہیں؟ یہ وہی قطر ہے جہاں طالبان نے اپنا دفتر بھی بنایا تھا تاکہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے جاسکیں۔ کیا طالبان میں بھی معتدل مزاج ہوا کرتے ہیں؟ ملا عمر معتدل مزاج طالبان ہے؟ خون ریزی میں اعتدال کیسا؟ فکر جب تکفیری ہوگی اور نظر صرف ظواہر پرستی تک محدود ہوگی تو پھر اس میں اعتدال کہاں سے آگیا؟
 
اس آیت کا مفہوم با رہا لکھا گیا ۔مکرر عرض ہے کہ
’’جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘
کیا النصرہ فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیم جو القاعدہ کا حصہ ہے، وہ معتدل مزاج ہے؟ ملا عمر سے لے کر مولوی صوفی محمد تک، اور مولوی صوفی محمد سے لے کر ملا فضل اللہ تک۔ بیت اللہ محسود سے لے کر حکیم اللہ محسود تک، منگل باغ سے لے کر احسان اللہ احسان اور شاہد اللہ شاہد تک، عمر خراسانی سے مولوی نذیر تک، پنجابی طالبان کی شاخ کے کمانڈر عصمت اللہ معاویہ اور پھر ملک اسحاق سے مولوی لدھیانوی تک۔ کیا یہ سب فکری سطح پر ایک ہی نہیں؟ ان میں سے اعتدال کس میں ہے؟ کیا مولوی عبدالعزیز لال مسجد والے اعتدال پسند ہیں؟ کیا اورنگزیب فاروقی معتدل تکفیری ہیں؟ کیا جہاد النکاح کے دلدادہ، مسلمانوں اور اسلامی تعلیمات کی جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ عراق و شام میں پاکستانی طالبان بھی لڑ رہے ہیں؟ جن میں سے پنجابی طالبان بھی ہیں۔
 
ہم مگر حقائق سے آنکھیں چرا لینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ القاعدہ کا سربراہ جسے اسامہ بن لادن کہا جاتا ہے، کیا وہ ہمارے ہاں نہیں تھا؟ کیا القاعدہ معتدل مزاج ہے؟ کیا اسامہ بن لادن معتدل مزاج تھا؟ جس نے افغانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کیا صرف افغانوں کو؟ پاکستان کو بھی۔ اب کراچی کے مختلف علاقوں سہراب گوٹھ، گلشنِ معمار، گڈاپ ٹاؤن، منگھو پیر سمیت کراچی کے دیگر علاقوں میں داعش کے حق میں وال چاکنگ کی گئی، حتیٰ کہ کراچی سپر ہائی وے پر قائم پولیس کی چوکیوں پر بھی راتوں رات داعش کے حق میں نعرے لکھ دیئے گئے۔ اخبارات نے اس واقعہ کو رپورٹ کیا۔ کوئی چار روز ادھر کی بات ہے، محکمہ داخلہ پنجاب نے کمشنر لاہور، سی سی پی او لاہور سمیت پنجاب بھر کے آر پی اوز کو ایک مراسلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ داعش کے دہشت گرد تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کی آڑ میں پنجاب میں داخل ہوچکے ہیں اور کالعدم تحریکِ طالبان کے بیشتر دہشت گرد کمانڈر بھی داعش میں شامل ہوچکے ہیں، اس شمولیت کے نتیجے میں نو اور دس محرم الحرام کو دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ 

واہ کینٹ میں حساس اداروں نے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے حق میں آویزاں کئے گئے بینرز قبضے میں لئے اور کی گئی وال چاکنگ مٹائی۔ یہ عابد کہوٹ کون ہے؟ جس نے کراچی میں ازبک شہری ولید الامہ سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں عابد کہوٹ کو پاکستان میں داعش کا کنٹری ہیڈ بنانے کی پیشکش کی گئی؟ حساس ادارے اب عابد کہوٹ کی تلاش میں ہیں۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ داعش رائے ونڈ میں اپنا کنٹری دفتر قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ سوال مگر ہماری نااہلی کا ہے۔ آج کے ایک قومی اخبار میں رپورٹ ہوا کہ حساس اداروں نے داعش کی موجودگی کے بارے کھوج لگانا شروع کر دیا کہ آیا واقعی ایسا ہے یا نہیں؟ سوال مگر یہ ہے کہ اگر ایسا نہیں تو پھر عابد کہوٹ کی تلاش کیوں ہے؟ اگر داعش کو پاکستان میں حمایت حاصل نہ ہوتی تو اس کے حق میں وال چاکنگ کیوں کی جاتی؟ یہ وال چاکنگ کرنے والے کون ہیں؟ یہ ایسا ’’کھلا راز‘‘ ہے جس پہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مدارس کے اندر تکفیری فکر کو پروان چڑھایا گیا۔ 70 کی دھائی میں امریکی ڈاکر کا ایسا زور تھا کہ’’جذبہء جہاد‘‘ آسمان کی وسعتوں کو چھو رہا تھا۔ ہم اپنے لئے آگ کا گڑھا تیار کرتے رہے۔ 

آج بھی عالمی سازشی کردار کا بہانہ تراش کر داعش کی پاکستان میں حمایت سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آئے روز داعش کے حق میں وال چاکنگ کرنے والے کون ہیں؟ اس بارے زیادہ کھوج لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ایک خاص فکری سلسلہ ہے، جس کی کڑیاں شام سے عراق اور افغانستان سے پاکستان تک ملی ہوئی ہیں۔ بعض عرب ممالک اس فکری سلسلے کے عیاں و پنہاں کفالتی کردار ہیں
۔ ہم فیصلہ کن مرحلے پر ہیں۔ اچھے اور برے طالبان کی تمیز کرتے کرتے ہم نے اپنا بہت کچھ کھو دیا۔ اندر سے یہ مگر سارے ایک ہیں۔ خان سید سجنا گروپ؟ کیا یہ تکفیری نہیں؟ کیا اس گروہ نے سینکڑوں مسلمانوں کو اپنی وحشت کی بھینٹ نہیں چڑھایا؟ اس سے مذاکرات کے لئے مگر محسود جرگے کی تشکیل کیوں؟ کیا کل داعش کے حمایتیوں سے بھی ایک بار پھر مذاکراتی کھیل کھیلا جائے گا؟ 

آخری تجزیے میں دہشت گردوں کے خلاف ریاست کارروائی کیا کرتی ہے۔ ان کے حمایت کاروں کے خلاف بھی۔ کیا داعش کے حق میں کی جانے والی وال چاکنگ داعش کے ’’سلیپرز سیل‘‘ کر رہے ہیں؟ یا ملا فضل اللہ سے علیحدہ ہو کر داعش میں شمولیت کا اعلان کرنے والے طالبان کے دھڑے؟ جو بھی ہے، ہم داعش کے خطرے سے دوچار ہیں اور ریاست کو ہنگامی بنیادوں پر اس عالمی دہشت گرد تنظیم کے حمایت کاروں کے خلاف پہاڑوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی آپریشن کرنا چاہیے، ورنہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کیا داعش کے جاری کردہ عالمی نقشے میں پاکستان ان کی خود ساختہ ریاست کا حصہ نہیں ظاہر کیا گیا۔؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button