مضامین

حشر عاشور اور حیرت عقل (خصوصی مضمون)

تحریر: سید اسد عباس تقوی

عاشورہ حسینی کو کیسے بیان کروں؟ اس واقعہ کے بارے میں کیا لکھوں؟ کمال عشق کہوں، اوج جنوں لکھوں یا جذب و مستی کا منبع۔ واقعہ کربلا، قیام حسین (ع) تاریخ انسانی کا وہ عظیم واقعہ ہے جس پر فکر انسانی صدیوں سے غور کر رہی ہے، تاہم سوائے اظہار حیرت کے اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ قاصر رہے ہیں تاریخ انسانی کے اعلٰی ترین دماغ اس واقعے کی پہنائیوں کو درک کرنے سے۔ بیان کرنے والوں کی زبانیں اس واقعے کی جہات کا احاطہ کرنے کی جتنی بھی سعی کرتی ہیں اپنی بے بسی کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتی ہیں۔ عقل انسانی حسین (ع) سے محبت اور وابستگی کی بہت سی دلیلیں پیش کرتی ہے۔ کبھی کہتی ہے کہ چونکہ حسین (ع) نواسہ رسول (ص) تھے، اس لئے محترم ہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ علی (ع) ابن ابی طالب و فاطمہ الزھراء (س) کے فرزند تھے، اسی لئے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ حسین (ع) کا قیام انسانی اقدار کی سربلندی کے لئے تھا، اسی لئے انسانیت دوست لوگ حسین (ع) کو دوست رکھتے ہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ چونکہ حسین (ع) مظلومیت سے مارے گئے اسی لئے لوگ ان سے وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم یہ عقل جب ’’حشر عاشور‘‘ کا مشاہدہ کرتی ہے تو اپنی دلیلوں پر خود ہی حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ روز عاشور عقل زبان حال سے کہتی نظر آتی ہے کہ یہ دلیلیں اس حشر کی وضاحت کے لئے کافی نہیں ہیں۔ رسول خدا (ص) کی رحلت، امیرالمومنین (ع) کی شہادت، جناب سیدہ (س) کی شہادت، ان تمام ہستیوں اور ان کے علاوہ دیگر الہی انسانوں کا انسانیت کے لئے قیام، اولیائے خدا کی مظلومانہ شہادتیں کبھی بھی ایسا حشر بپا نہیں کرسکتیں، جیسا حسین (ع) اور ان قیام نے کیا۔
 
ہے کوئی جو میرے لئے کربلا کے پنہاں رازوں سے پردہ اٹھا سکے؟ کیا کوئی ہے جو بتاسکے کہ زھراء (س) کے لال نے ایسا کیا کیا کہ پوری انسانیت یوں ان کی گرویدہ اور مجاور ہے؟ (61ھ) کا یزید کیا اور اس کی اوقات کیا؟ واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک کیا آپ کسی ایسے یزید صفت کا نام لے سکتے ہیں جو حسین (ع) کے مقابلے میں ٹھہر سکا ہو۔ یزیدت تو حسین (ع) سے اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اب اس نے یہ نام ہی ترک کر دیا۔ گالی ہے آج یہ نام ۔۔۔کوئی بھی سلطان کتنا ہی جابر کیوں نہ ہو؟ کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہو؟ کیسے کیسے گناہ کیوں نہ کرتا ہوں، یزید کہلانا پسند نہیں کرتا۔ 

دوسری جانب وہ دل ہیں جن پر حسین (ع) کا عشق معجز نما ہے، اور جن کے قلوب پر حسین (ع) ابن علی (ع) کی حکمرانی ثبت ہوچکی ہے۔ آپ ان کو بھلے کافر کہیں، زندگی ان کے لئے مشکل کر دیں، ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائیں، قتل کریں، فتوے، گالم گلوچ، الزام تراشیاں، موسمی سختیاں کوئی بھی رکاوٹ انہیں یاحسین (ع)، یاحسین (ع) پکارنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ جنون ہے، عشق ہے، مستی ہے جو کسی اور شے سے ممکن نہیں۔ اس جنون، عشق اور مستی کا عنصر حقیقی فقط حسین (ع) ہے۔ حسین (ع) نے ان دلوں پر دم کر دیا ہے۔ وہ حسین (ع) کے دیوانے ہوچکے ہیں۔ جانتے ہیں کہ حسین (ع) سے عشق کا راستہ آسان نہیں ہے، جان سے گزرنا پڑ سکتا ہے، مشکلیں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔ تہمتیں برداشت کرنی پڑیں گی، لیکن پرواہ نہیں۔ اب کہیں عقل سے کہ وہ اس عشق و مستی کی وضاحت کرے۔ ایسے ہی کسی مقام کے بارے میں شاعر مشرق نے کہا تھا:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل محو تماشہ ہے لب بام ابھی
 

ایسا بھی نہیں کہ عشاق حسین (ع) کے قتل و غارت، خوف و ہراس اور صعوبتوں کا سلسلہ نیا ہے، جس کا پہلے سے ان دیوانوں کو کوئی تجربہ نہیں۔ بنو امیہ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ اور بعد کے تمام ادوار میں حسین (ع) کے دیوانوں کو محبت حسین (ع) کے جرم میں اجتماعی اور انفرادی صعوبتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی عراق، شام، پاکستان، افغانستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عاشورہ اور اربعین کے جلوسوں پر دھماکے کئے جاتے ہیں، تاکہ پروانے شمع سے دور ہوجائیں۔ موت کے خوف سے شمع کے گرد اکٹھے نہ ہوں۔ مارنے والے کو آج تک سمجھ نہیں آرہا کہ یہ پروانے اس موت کو موت سمجھتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اسے معشوق سے وصل کی سبیل جانتے ہیں۔ کربلا کے شہیدوں کی مانند انہیں معلوم ہے کہ تھوڑی دیر کی تیر و تفنگ کی تکلیف کے بعد وہ وصال ہے جس کے بعد کوئی فراق نہیں۔
 
اس مقام پر مجھے کہنے دیجئے کہ اعجاز حضرت حسین (ع) کو دوست اور دشمن ہر دو نے صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں۔ عشق حسین (ع) کو سمجھنا ہے تو رسول اکرم (ص) کی اس حدیث کو بہت غور سے پڑھئے، اس پر بار بار غور کیجئے۔ رسول خدا (ص) نے یہ بات حسین (ع) کے علاوہ کسی بھی ہستی کے بارے میں نہیں کی۔ حسین (ع) کے بارے میں کیوں کہی واقعاً قابل غور نکتہ ہے۔ حدیث آپ کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش نظر ہے:
انالقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا
(المستدرک الوسائل۔المیرزا نوری ج 10ح12084)
یقیناً قتل حسین کے لئے مومنوں کے دلوں میں ایک حرارت ہے جو کبھی ٹھندی نہیں ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button