جنید جمشید کی زندگی کے خفیہ گوشے اور ہماری مذہبی منافقت!
پچھلے دو دن سے کافی کشمکش کا شکار تھا اس لیے جنید جمشید کے حضرت عائشہ کے بارے میں ادا کیے گئے کلمات کی نہ تو کوئی وڈیو اپنے پیج پر شئیر کی نہ کوئی بات کی۔۔ لیکن اب جس طرح اس وڈیو پر "مٹی پاو” ہورہا ہے اور اپنا بکرا آج پھنسا ہے تو یہ مولوی کیسے قابلِ عمل حل بتا کر اس کو بچارہے ہیں جبکہ دیگر مواقع پر ان کی شعلہ بیانی قابلِ دید ہوتی ہے جس میں یہ "سنتِ ضیاء” پر عمل کرتے ہوئے سماج کو ہماری اجتماعی قربانی کا درس دینے لگتے ہیں اسلیے سوچا جنید جمشید کے اس عمل کے بعد لوگوں کے کانوں میں یہی مناسب وقت ہے کچھ حقائق کو گوش گزار کردیا جائے ورنہ اس سے قبل جب بھی پاکستان کے "مقدس” مولویوں پر لکھا نہ صرف اس پیج پر دھمکیوں والے پیغامات موصول کیے بلکہ میرے جاننے والوں کو فون کرکے مجھے "قتل” تک کی دھمکیاں دی گئیں جس پر مجھ سے پیار کرنے والے وہ پوسٹس "ڈیلیٹ” کرنے کے لیے مجھے واسطے دیتے رہے۔
جنید جمشید نے جو کلمات ادا کیے اس پر ہمارے معاشرے اور علماء کے ردعمل نے ہمارے ملک میں پائی جانے والی مذہبی منافقت کو جتنی "اچھی” طرح بےنقاب کیا ہے ہمیں اس کے لیے جنیید جمشید کو بھی "کریڈٹ” دینا چاہیے۔ کیا داڑھی اتنا بڑا لائسنس ہے جو آپ کو بڑے سے بڑے "گناہ” کی لذت سے آشنائی کا موقع دیتا ہے اور آپ کے بچ نکلنے کی "گارنٹی” بھی مہیا کرتا ہے واہ۔۔۔۔ تو پھر ان خواتین کا کیا قصور ہے جو نوے کی دہائی میں صرف موسیقی کا دلدادہ ہونے کی وجہ سے جنید جمشید کے میوزیکل کانسرٹس سننے آتی تھیں اور جنید جمشید کی مسحور کن دھنوں میں گم ہوکر ہلکا پھلکا جھوم بھی لیتی تھیں جبکہ ہمارے تمام فقہ کے علماء کی نظر میں وہ تمام کی تمام بدکار عورتیں قرار پاتی تھیں لیکن جنید جمشید "بئیر” پینے سے لے کر خواتین کے قرب کا مزا چکھ کربھی صرف ایک عدد داڑھی "پاکر” مومن بن جاتے ہیں۔ اور ستم یہ کہ جن الزامات پر "توہینِ مذہب” قانون کی لاٹھی سے یہ ملاء ہم لوگوں کو ہانکتے ہیں وہ بھی موصوف سے "سرزرد” ہوجائے تب بھی درگزر کی تلقین کی جاتی ہے اور مذہب کے نام پر "زیرو ٹالرینیس” دکھانے والا عام پاکستانی بھی ایک دوسرے کو برداشت کا سبق پڑھانا شروع کردیتا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں ایک آمر کے بنائے "توہینِ مذہب” قانون کا مخالف ہوں اور اس کے خاتمے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن بدقسمتی سے مجھے جنید جمشید پر اس قانون کے بھرپور "اطلاق” کی خواہش ہے تاکہ آج ان مولویوں میں سے کسی کے گھر کو آگ لگے تو ان کی بھی آنھکیں کھلیں جب ان کے کسی پیارے کا جنازہ پڑھانے سے بھی علماء انکار کردیں گے۔۔
یہ بھی نہیں رہیں گے جو وہ دن نہیں رہے
کچھ لوگ اپنے ظلم مگر گن نہیں رہے
میرے جیسے لبرل انسان کے پاس جنید جمشید پر "توہینِ مذہب” قانون کے استعمال کے لیے کچھ دلائل ہیں جو دینے سے پہلے آج میں جنید جمشید صاحب کی زندگی کے کچھ پوشیدہ گوشوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتا ہوں جو اس سے قبل کرتا تو اندھی عقیدت کاشکار ہمارے لوگ سننے کو تیار نہ ہوتے۔
جنید جمشید پچھلے کچھ سالوں سے اے آر وائی ڈیجیٹل پر رمضان کی خصوصی نشریات کا حصہ ہوتے ہیں جس کے عوض وہ چینیل سے ایک کروڑ روپے براہِ راست کیش اور نشریات میں چلنے والے اشتہارات پر کمیشن کی صورت میں بھی ایک بڑی رقم "سمیٹ” کر سائیڈ پرہوجاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ موصوف نے دوہزار تیرہ میں صرف تیرہ ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ بہرحال گزشتہ ٹرانسمیشن میں ایک انوکھا واقعہ بھی رونما ہوا جو میں پہلی بار منظرِ عام پرلا رہا ہوں۔ معمول کے مطابق ٹرانسمیشن چل رہی تھی اور پورے پاکستان سے لوگ ٹیلی فون کال کے ذریعے دینی مسائل پر جنید جمشید سے رائے بھی طلب کررہے تھے اسی دوران سٹوڈیو سے ملحقہ کنٹرول روم میں ایک کالر خاتون نے ٹیلی فون کرکے عملے سے درخواست کی کہ ان کی کال سٹوڈیو میں جنید جمشید صاحب کو ٹرانسفر کردی جائے۔ کال موصول کرنے والے عملے کے رکن نے اپنی متعین کردہ ذمٰہ داری کے تحت خاتون سے استفسار کیا کہ وہ کس مسئلہ پر گفتگوکرنا چاہتی ہیں؟ جواب میں خاتون نے اصرار کیا کہ ان کی کال بس جنید جمشید ٹرانسفر کردی جائے جس پر خاتون سے عرض کیا گیا کہ دیکھیے یہ میری ڈیوٹی کا حصہ ہے کہ کالر سے سوال پوچھوں کال سٹوڈیو میں ٹرانسفر کرنے سے پہلے تاکہ اگر کالر نے جو سوال پوچھنا ہو وہ پہلے پوچھا جا چکا ہو تو دوبارہ پوچھ کر ٹرانسمیشن کا قیمتی وقت ضائع مت ہونے دیا جائے۔ اس کے بعد وہ خاتون گویا ہوئیں کہ "مجھے جنید جمشید سے اپنے اور ان کے اذدواجی تعلق پر گفتگو کرنی ہے۔” خاتون کے اس جملے نے ٹرانسمیشن کے عملہ کے رکن کو مزید پریشان کردیا کہ یا تو یہ خاتون جھوٹ بول رہی ہیں یا اگر سچ بھی ہے تو میں اس کو آن ائیر بھجوا کر کہیں ٹرانسمیشن اور اپنے لیے مشکل نہ پیدا کرلوں جس پر اس نے خاتون سے معذرت کرلی اور کہا کہ اگر وہ اپنا مسئلہ یہیں بیان کردیں تو وہ جنید جمشید کے علم میں لاکر ان کو "کال بیک” کروادے گا۔ اس پر خاتون نے اپنی داستان کچھ یوں بیان کی کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین سے بات کررہی ہیں اور ان کا تعلق ایک انتہائی مذہبی گھرانہ سے ہے۔ خاتون کے بقول ان کے پہلے خاوند کا شادی کے تھوڑے ہی عرصہ بعد انتقال ہوگیا تھا جس بنا پر ان کے والد کافی پریشان رہتے تھے۔ کیونکہ ان کے والد کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا تو ایک روز انہوں نے مولانا طارق جمیل کو ٹیلی فون کرکے اپنی پریشانی بیان کی۔ جس
وقت مولانا طارق جمیل ان سے فون پر گفتگو کررہے تھے تو مولانا طارق جمیل کے قریب موجود جنید جمشید بھی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ جنید جمشید کے علم میں جب یہ سارا واقع آیا تو انہوں نے مولانا طارق جمیل سے عرض کی کہ وہ اس بیوہ لڑکی کو اپنانے کے لیے تیار ہیں جس پر مولانا طارق جمیل نے یہ رشتہ خاتون کے والد کو بتایا جنہوں نے فوری طور پر جنید جمشید کی مذہبی شبیہ کی بنیاد پر قبول کرلیا اور یوں یہ شادی انتہائی خاموشی سے انجام پاگئی۔ لیکن مسئلہ تب شروع ہوا جب شادی کے بعد جنید جمشید نے خاتون سے تعلق انتہائی ثانوی سا رکھا یعنی سال میں ایک یا دو بار اسلام آباد چکرلگے تو خاتون کے گھر پر رات گئے قیام کے لیے آنا اور صبح ہوتے ہی روانہ ہوجانا۔ خاتون چونکہ سرکاری ملازمہ تھیں اور گھر بھی ذاتی ملکیت تھا اس لیے انہیں خرچہ کے لیے کبھی جنید جمشید کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آئی لیکن انہیں جس چیر کا دکھ ہوا کہ جنید جمشید نے شادی کے بعد نہ تو کبھی ان کو فون کرنا مناسب سمجھا اور نہ ہی کبھی ان کو تکلف کے طور پر بھی فون کرکے پوچھا کہ ان کو کسی چیز یا خرچہ کی ضرورت تو نہیں؟ خاتون کا کہنا تھا کہ شادی کئی سال بعد ان کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے جیسے وہ صرف جنید جمشید کی خواہشات کے لیے اسلام آباد میں "رکھی” گئی ہیں۔ میں نے جو حقائق بیان کیے ہیں میں چیلینج کرتا ہوں جنید جمشید اور مولانا طارق جمیل ان کو خود وڈیو ریکارڈ کروا کر جھٹلائیں۔
اب آتے ہیں جنید جمشید کے اندازِ کاروبار اور ذرائع آمدن کے حلال اور حرام پر۔۔۔ موصوف کا ایک کاروبار تو مشہور کپڑوں کے بوتیق کا ہے لیکن اس سے قبل ذرا ان کے ایک اور کاروبار سے بھی پردہ اٹھا دیا جائے۔ حضرت نے سرکار سے سالانہ تین سو حاجیوں کا ایک کوٹہ منظور کروا رکھا ہے جس میں مولانا طارق جمیل بھی ان کے پارٹنر ہے۔ جنید جمشید صاحب اور مولانا طارق جمیل صاحب ہر سال تین سو حاجیوں کا ایک گروپ لے کر سعودی عرب جاتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں حج کا خرچہ تین لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے لیکن جنید جمشید اور مولانا طارق جمیل اپنی "مقدس کمپنی” کے عوض فی حاجی بارہ لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ کیا عظمت والا انداز ہے دین کو "دھندے” میں بدلنے کا واہ واہ۔۔
ایسی جنت کی ہوس تجھ کو مُبارک زاہد
جو ترے حسنِ خیالات سے آگے نہ بڑھی
رہی بات جنید جمشید کے بوتیق کی تو اس میں کتنا رزقِ حلال موصوف کما رہے ہیں وہ بھی ملاحضہ ہو۔۔۔ جنید جمشید صاحب کی ویب سائٹ کے بقول ان کے ملک بھر میں کل چون اسٹورز ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب عمارات میں چھ اسٹورز ہیں۔ یعنی کل ملا کر ساٹھ اسٹورز ہوئے۔ ٹیکس پاکستان کی تحقیقات کے مطابق موصوف جنید جمشید نے سال دوہزار تیرہ میں صرف ترپن ہزار روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ ان کے بوتیق "جنید جمشید پرائیویٹ لیمیٹیڈ” نے سالانہ آمدنی صرف دو کروڑ روپے ظاہر کرتے ہوئے اس پر انتیس لاکھ روپے کے قریب ٹیکس کٹوایا۔ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں چھ سو روپے والا کرتا چھ ہزار میں بیچ کر جنید جمشید پاکستان بھر میں موجود اپنے چون اسٹورز سے صرف دو کروڑ روپے سالانہ کما رہے ہیں؟ میں دعٰوی سے کہتا ہوں کہ صرف اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں واقع جناح سوپر مارکیٹ میں واقع جنید جمشید کا اسٹور سالانہ دو کروڑ سے زائد کماتا ہوگا باقی ترپن اسٹورز کی آمدن یقینی طور پر اس کے علاوہ ہوگی۔۔۔ تو کیا موصوف مالی بددیانتی کے مرتکب نہیں ہورہے؟ کیا ریاست کو ٹیکس نہ دے کر جو اسلام میں بھی ہم پر فرض ہے موصوف اپنی کمائی کو حرام میں نہیں بدل رہے؟
اب ذرا آجائیے جنید جمشید صاحب کے تازہ کارنامہ پر جس کا پسِ منظر میں ذرا بیان کردوں کہ کچھ عرصہ قبل ان کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر منظرِ عام پر آئی جس میں یہ فرما رہے تھے کہ خاتون کو ڈرائیونگ کا حق نہیں ہونا چاہیے جس پر خواتین نے سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ان کی سعودی عرب سے "درآمد شدہ” سوچ کی مذمت کی۔ جنید جمشید اس بات کو دل پر لے کر بیٹھ گئے اور بجائے اپنے بیان کی وضاحت کرتے یا خواتین کی دل آذاری پر معذرت کرتے جناب نے ایک اور وڈیو ریکارڈ کروا ڈالی جس میں خواتین کو ذہنی بیمار قرار دینے کے لیے دین کا سہارا لینے کی غرض سے ہمارے نبی محمد ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ کو پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی میں مسائل پیدا کرنے والی شخصیت قرار دیا اور اس کی وجہ انکا عورت ہونا بیان کی۔ جس کے بعد توقع کے عین مطابق ملک بھر میں وہ وڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کی طرف سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔
لوگوں کے ردِعمل کی تپش محسوس کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے روحِ رواں مولانا طارق جمیل نے ایک وڈیو پیغام میں جنید جمشید کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ "جنید جمشید نے یہ بیان اپنی جہالت کی وجہ سے دیا ہے جس پر انہیں فوری طور پر توبہ اور معافی مانگنی چاہیے۔ جنید جمشید کے ان خیالات کو تبلیغی جماعت اور مجھ سے ملا کرمت دیکھا جائے۔” جس کے چند گھنٹوں بعد موصوف جنید جمشید نے بھی ایک وڈیو جاری کی جس میں لوگوں سے درخواست کی کہ "ان سے نادستہ بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے اور کیوں کہ وہ نہ تو عالم ہیں نہ مفتی اس لیے ان کی جہالت کو معاف کردیا جائے کیونکہ انہوں نے دن میں تین بار وعظ بیان دینے ہوتے ہیں اس لیے ان کو معلوم نہ ہوا کہ ان کے منہ سے کیا کلمات نکل گئے۔”
اب اس مسئلہ کو جس آسانی سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی اس پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کے صا
ف نظر آرہا ہے کہ مولانا طارق جمیل اور جنید جمشید نے میچ میں "سپاٹ فکسنگ” کررکھی تھی جس کے لیے انہوں نے بڑی خوبصورتی سے جنید جمشید کو بنا کر "بال” دی تاکہ ان کی وکٹ بھی نہ گرے اور بالر کا "کیرٗیر” بھی بچ جائے۔ مولانا طارق جمیل نے اپنے بیان میں انتہائی سادگی سے بیان کردیا کہ جنید جمشید کے بیان کو ان سے یا تبلیغی جماعت سے ملاکر نہ دیکھا جائے۔ جنابِ والا تو جو جنید جمشید کو عروج بخشنے میں ان کا کردار ہے جو سوشل میڈیا پر اپنی اور جنید جمشید کی تصاویر کی وہ تشہیر کرتے ہیں اور پاکستان کے گلی چوراہوں سے لے کر دنیا بھر میں بڑے بڑے مذہبی اجتماعات میں جنید جمشید کو ساتھ لے کر گھومتے ہیں اور تبلیغی جماعت کے "برینڈ ایمبیسیڈر” کے طور پر ان کی "مارکیٹینگ” وہ کرتے رہے ہیں اس کے بعد بھی ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ ایک دین سے نابلد شخص کو (جو اب بقول مولانا طارق جمیل کے "جاہل” ہے) ایک عالم کے طور پر لوگوں میں متعارف کرواتے رہے اور اس سے تبلیغ اور درس و تدریس کا کام لیتے رہے؟ کیا وہ اس جرم کے قصور وار نہیں کہ انہوں نے ایک جاہل شخص کی صرف شہرت سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے اس کو "پروموٹ” کیا؟
اب آجائیے مولانا طارق جمیل کے بیان کردہ دوسرے جملے پر جو ان کی نیت کو مزید مشکوک کرتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کو انتہائی خوبصورتی سے "فرار” کا راستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "فوری طور پر معافی مانگو اور توبہ کرو” جناب یہ "نسخہِ کیمیا” باقی پاکستانیوں کے لیے قابلِ عمل کیوں نہیں؟ مجھے معلوم ہے آپ فرمائیں گے کہ آپ نے کبھی توہین مذہب کرنے والوں کو مارنے کے فتوے نہیں دیے تو جناب آپ نے کبھی ان کو بچانے کے لیے یوں آواز بھی تو نہیں اٹھائی۔ آپ کو اپنی پوزیشن اب واضح کرنا ہوگی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہینِ مذہب کا پاکستانی قانون غلط ہے اور یوں معافی مانگ کر "گناہِ کبیرہ” کی توبہ قبول کی جاسکتی ہے تو کھل کر سامنے آئیں اور اس قانون کے خلاف بات کریں اور قانون کے تحت جیلوں میں سزا کاٹنے والے مجرموں کی جان چھڑوائیں۔ لیکن اگر آپ اس قانون کو ایک "مثالی” قانون مانتے ہیں تو جنید جمشید پر بھی اس کے اطلاق کی مہم چلائیں۔
اب ذرا کچھ گذارش جنید جمشید صاحب سے۔۔ حضور آپ نے اپنی معافی نامہ والی وڈیو میں اعتراف کیا کہ آپ کوئی عالم یا مفتی نہیں اور جہالت و کم علمی کی بنیاد پر ایسی گفتگو کرگئے۔ جنابِ والا اگر آپ عالم نہیں تو کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ جیسا کم علم شخص جب دین کی تبلیغ کرے گا تو وہ اس بھاری ذمٰہ داری سے انصاف نہیں کرسکے گا اور ایسے جاہلانہ بیان دے کر علماء کی بدنامی اور دینِ اسلام کے تشخص کی تباہی کا باعث بنے گا؟ آپ جواب دیں کہ جب آپ عالم نہیں تو کیوں ٹی وی چینلز سے مذہبی پروگراموں میں شرکت کے کروڑوں روپے وصول کرتے رہے؟ یقین مانئیے آپ سے کہیں زیادہ بڑے پن اور غیرت کا مظاہرہ آپ کی وڈیو منظرِ عام پر آنے والے روز امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کی "غیر مسلم” کمیونیکیشن ڈائریکٹر الزبتھ لوٹین نے دکھایا ہے جنہوں نے امریکی صدر اوباما کی بیٹیوں کا تمسخر اڑانے پر تنقید کے بعد اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا۔ دینِ اسلام کی حرمت آپ سے تقاضا کرتی ہے کہ آپ بھی تبلیغ سے علیحدہ ہو کر اب خاموشی سے زندگی گزاریں اور دین کو کریڈٹ کارڈ کے طور پر”کیش” کرنا بند کردیں۔ ہاں ایک بات اور براہِ مہربانی ٹیکس پورا ادا کرکے رزقِ حلال کمائیں۔
آخر میں کچھ عرض اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کے لیے۔۔۔ جناب صرف داڑھی رکھ لینے سے اور سرِعام نماز روزہ کی نمائش کرنے والا لازمی نہیں کہ اندر سے بھی وہی ہو۔
تیرے ہوتے ہوئے بھی اے خالق
مجھ پر ہربندے نے خدائی کی
جہاں ہم نے کوٹ رادھا کشن میں معصوم شہزاد اور شمع کو ان کے دودھ پیتے معصوم بچوں کے سامنے مذہب کی توہین کے جھوٹے الزام میں زندہ جلا ڈالا، ملتان یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم جنید حفیظ کو جیل میں ڈلوا دیا اور ان کا مقدمہ لڑنے والے انسانی حقوق کے نامور وکیل راشد رحمان کو صرف ایک مبینہ توہینِ مذہب والےملزم کا وکیل ہونے کی وجہ سے قتل کر ڈالا، سلمان تاثیر شہید کے قاتل کو پھولوں کی پتیوں کا لباس پہنا ڈالا کیا آج جنید جمشید کے لیے ہمارا نرم رویہ ظاہر نہیں کرتا کہ کوئی بھی داڑھی رکھ کرہماری مذہبی عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ ذرا سوچیے شاید جنید جمشید کے اس مقدمے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر ہم یا تو اس بدترین کالے قانون سے جان چھڑوا سکتے ہیں یا اپنے اس "مقدس” مولوی جنید جمشید کو سزا دلوا کر اپنے ہاں پائے جانے والے دہرے معیار کو ختم کرسکتے ہیں!