کیا داعش پاکستان تک پہنچ گئی ہے؟
تحریر: محمد حسن رضا
بشکریہ: روزنامہ دنیا
پاک فوج کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کے بعدکالعدم تحریکِ طالبان و دیگر دہشت گرد تنظیموں کی کمر ٹوٹنے سے ان سے الحاق شدہ ذیلی اور دیگر کالعدم تنظیموں میں مایوسی و انتشاور جنم لینے لگا ہے جس کے بعد ان کالعدم تنظیموں کی جانب سے خود کو عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ منظم کرنے کے لیے مبینہ طورپر کوششیں شروع کر د ی گئی ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی ، کالعدم تحریک اسلام ، کالعدم تحریک الحرار وکالعدم جنداللہ سمیت بعض کالعدم تنظیموں کی جانب سے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو پنجاب اور سندھ میں فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان حالات میں کالعدم لشکرِ جھنگوی نے ملتان، لاہور و گوجرانوالہ سمیت متعدداضلاع میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور اپنے رہنمائوں و کارکنوں کومختلف ٹاسک دے دیئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ان کے سرگرم طلباء کے ساتھ بھی مبینہ طورپر باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیاہے۔
یہ کالعدم تنظیمیں صرف داعش کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ 8کلب جی او آر ون میںامن و امان سے متعلقہ ایک اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ لشکرِ جھنگوی اس وقت گوجرانوالہ، گجرات، حافظہ آباد، منڈی بہائوالدین، سیالکوٹ و نارووال میں مبینہ طور پر انتہا پسند سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اسی اجلاس میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ پنجاب میں داعش کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر)شجاع خانزادہ،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے ایڈوائزر رانا مقبول احمد، سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ ، چیف سیکرٹری پنجاب نوید اکرم چیمہ، سپیشل سیکرٹری ہوم ڈاکٹر شعیب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ، کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو شامل تھے۔ دستاویزات کے مطابق اجلاس میں صوبے میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر شدید اظہارِ تشویش کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں محکمۂ داخلہ کے حکام نے تنظیم کے حوالے سے شہر کے مختلف حصوں میں کی جانے والی وال چاکنگ کا نوٹس لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کی اور تھانوں کی سطح پر اس تنظیم کی سرکوبی کے لیے نیٹ ورک تشکیل دینے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جب اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ پنجاب میں د اعش کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو آئی جی پنجاب نے خاموشی اختیار کرلی اور جب چیف سیکرٹری نوید اکرم چیمہ سے رائے لی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تواس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ صورتِ حال پر فوکس کریںجب کہ رانا مقبول احمد نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم ایشو ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی جی صاحب آپ بتائیں کہ یہ کیا ہے؟ جس پر آئی جی نے کہا کہ ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ اجلاس میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ داعش کو پنجاب میں نہ رہنے دیا جائے ‘اس سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے جنہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو اور ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی کی جانب سے دوسری کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی غور کیا گیاجب کہ کرنل (ر)شجاع خانزادہ نے کہا کہ قانون کے مطابق داعش کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے فوری ایکشن لیا جائے۔
حکومت کی جانب سے تمام تر میٹنگز ہونے اور اقدامات کیے جانے کے باوجود بھی اجلاس کے دوہفتوں بعد صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد تنظیم داعش کے پوسٹر اور سٹیکرز چسپاں کیے گئے ہیںجس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ پولیس نے پوسٹر لگانے والوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ نواب ٹائون پولیس نے پوسٹر لگانے والے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ نواب ٹائون، ٹھوکر نیاز بیگ، چوہنگ اور کینال روڈ سمیت دیگر علاقوں میں داعش کے پوسٹرز اور سٹیکرز دیکھنے میں آئے، سٹیکرز اور پوسٹرز دیواروں اور کھمبوں پر لگائے گئے ہیں۔ پولیس نے فوری طور پر مختلف جگہوں سے پوسٹرز اور سٹیکرز کو اتار دیا اور رات گئے تک پوسٹرز اور سٹیکرز لگانے والے ملزموں کو تلاش کرتی رہی۔ دوسری جانب معمول کے مطابق جب وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی تو آئی جی نے معمول کے مطابق ہی کہا کہ سب کنٹرول میں ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صوبائی دارالحکومت میں کالعدم لشکرِ جھنگوی ، کالعدم تحریک اسلام ، کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم تحریک الحرار، کالعدم جنداللہ گروپ کے بعض سینئر رہنمائوں و سرگرم کارکنوں نے لاہورکے علاقہ اچھرہ میںرواں ماہ 5نومبرکو پہلی میٹنگ کی جس میں کراچی ، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں سرگرم رہنمائوں نے شرکت کی جس میں داعش کی سرگرمیوں کا دائرہ کار پھیلانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی۔ دوسری میٹنگ 7نومبر کو وحدت روڈ کے علاقہ میں کالعدم تحریک الحرار کی ہوئی جس میں لشکرِ جھنگوی کے سینئر عہدیداروں نے بھی شرکت کی اور یہ انکشاف ہوا کہ گوجرانوالہ ڈویژن میں وہ اپنی سرگرمیاں بڑھانے پر فوکس کر رہے ہیں۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ ان کی سرگرمیاں پنجاب کے شہروں کی بجائے دیہی علاقوں میں زیادہ ہیںجنہیں وسعت دینے کے حوالے
سے بھی کام کیا جارہا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ان کے علم میں ہے کہ نہیں لیکن یہ ضرور علم میں تھا کہ پنجاب میں داعش کے نام پر کوئی غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔
اس ساری صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومتی عہدیداروں و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ علم تھا کہ داعش کا نام لے کر بعض کالعدم تنظیمیں داعش کے پوسٹرز و وال چاکنگ کر سکتی ہیں تو کیوں کوئی اقدامات نہ کئے گئے؟ دوسری جانب ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ تین روز قبل وزیراعظم نوازشریف کوملک کے معتبر ترین حساس ادارے کی جانب سے رپورٹ دی گئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ملک میں داعش نامی تنظیم کا کوئی وجود نہیں، تاہم چند کالعدم تنظیمیں خود سے داعش میں شمولیت ظاہر کر کے اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہیں۔ وزیراعظم کو دی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات کے بعد انٹیلی جنس اداروں نے ایک ماہ کی خفیہ مشق کے ذریعے پتہ چلایا ہے کہ ملک کے کسی کونے میں داعش کا کوئی وجود نہیں تاہم کئی علاقوں میں چند شرپسند عناصر نے انفرادی طورپر وال چاکنگ کر کے داعش کی موجودگی کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ انٹیلی جنس اداروں نے داعش کیلئے وال چاکنگ کرنے والے کئی شرپسندوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ تاہم ان لوگوں کا داعش سے تعلق ثابت نہیں ہواجس کے بعد اب حساس اداروں نے کالعدم تنظیموں کی کارکردگی کومانیٹرکرنا شروع کر دیا ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے بہتر رزلٹ آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں کہ پولیس افسراب تک اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوسکے۔ لاہور میں پولیس افسروں نے ایسے ترجمان بٹھا رکھے ہیں جن کو یہ نہیں معلوم کہ لاہور میں ماڈل تھانے کتنے ہیں؟صوبائی دارالحکومت میں کتنے ایس ایچ اوزکام کر رہے ہیںتو ایسے ترجمان جرائم کے حوالے سے کیا معلوما ت رکھتے ہوں گے۔ ہاں لاہور کے بعض پولیس افسر ایسے ضرورہیں جن کا دیگر افسروں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ نہ تو سیاست میں آتے ہیں اور نہ ہی وہ پسند و ناپسند کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وقت ضرورت ایسے کلچر کو فروغ دینے کی ہے جو میرٹ پر فیصلے کر سکے اور اگر پولیس کی کارکردگی ہی بہتر ہوجائے تو کئی معاملات میں سدھار آئے گا۔ لاہور اور ملتان سمیت دیگرشہروں میںداعش کے پوسٹرز و وال چاکنگ کے معاملات سامنے آنے پر وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہواجس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اجلاس میں خصوصی طورپر شرکت کی۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔کسی بھی انتہاء پسند تنظیم کی وال چاکنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔ پولیس ایسے شر پسند عناصر پر کڑی نظر رکھے اوران کی بیخ کنی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں تحمل ،برداشت اوررواداری کے جذبات کوفروغ دینے کی ضرورت ہے۔پولیس امن عامہ کی فضاء برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے اورلوگوں کے جان و مال اورعزت و آبرو کے تحفظ کے لئے اپنے فرائض تندہی اورجانفشانی سے سرانجام دے۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے۔