دہشتگردی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے
تحریر: ثاقب اکبر
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں جو سانحہ پیش آیا اس پر رنج و غم کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آتا۔ درد و اندوہ کا اظہار ہے کہ تھمتا نہیں۔ آنسو ہیں کہ بہتے چلے جاتے ہیں۔ ادھر کوئی اس واقعے کا ذکر کرتا ہے اور ادھر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اظہار کے مختلف انداز ہیں اور تعزیت کے مختلف طریقے۔ ایسے میں علمی و تحقیقاتی ادارے البصیرہ اور نظریہ پاکستان کونسل ٹرسٹ کے زیراہتمام اس سانحے پر اظہار غم کے لئے ایک تعزیتی ریفرنس کا اسلام آباد میں اہتمام کیا گیا۔ اس میں علماء بھی تھے اور دانشور بھی۔ شعراء بھی تھے اور صحافی بھی۔ سابقہ عسکری قیادت کے اہم افراد بھی تھے اور محققین بھی۔ مختلف تنظیموں اور مختلف مکاتب فکر کی نمایاں شخصیات بھی اس میں شریک تھیں۔ سلسلہ ہائے تصوف کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ اس نشست میں جو بات تکرار کے ساتھ کہی گئی اور جس پر بعض احباب نے گویا چیختے ہوئے اظہار کیا وہ یہ تھی’’دہشت گردی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پیر ناصر جمیل ہاشمی، ایئر مارشل (ر) سید قیصر حسین، مولانا مفتی گلزار احمد نعیمی، پیر احمد نقشبندی، اعجاز رضوی، ناصر علی ناصر، سید حمید الحسن رضوی اور دیگر کئی افراد نے اظہار خیال کرتے ہوئے بدلتے الفاظ کے ساتھ اور مختلف لہجے کے ساتھ یہی ایک بات کی۔ سید قیصر حسین کہہ رہے تھے کہ ہمیں پھر سے وہ پاکستان چاہیے جس میں شیعہ، سنی بلکہ مسلمان اور غیر مسلمان سب اکٹھے ہوں۔ انھوں نے اپنی پروفیشنل زندگی کا ایک واقعہ سنایا، جس میں وہ دشمن کے خلاف ایک فضائی کارروائی میں شریک تھے اور اس میں جو چار افراد حصہ لے رہے تھے، ان میں سے ایک شیعہ تھا، دوسرا سنی، تیسرا قادیانی اور چوتھا عیسائی۔ وہ فریاد کر رہے تھے کہ ہمیں پھر وہی پاکستان چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ان ملاؤں سے بچائیں جو منبر پر بیٹھ کر زہر اگلتے ہیں، دوسروں کو کافر کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا یہی وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو دوسروں پر حملوں کے لئے اکساتے ہیں۔
جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی ایک مولوی کا نام لئے بغیر کہہ رہے تھے کہ اس نے ایک انٹرویو میں سانحہ پشاور کے ذمے داروں کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں فتنے کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا۔ معروف شاعر انجم خلیق نے کہا کہ یہ تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ ایسے سانحات سے بچنے کے لئے دہشت گردی کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ماؤں کی گودوں کو اجاڑ دیا۔ انھیں ختم کرنا ہوگا۔
اعجاز رضوی نے کہا کہ طالبان، داعش اور بوکو حرام کی فکری بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ چند صدیاں پہلے ایک شخص گزرا ہے جسے پہلے تو خارجی اور تکفیری فکر کا حامل کہا جاتا رہا لیکن اب چند دہائیوں سے اسے نہایت محترم ظاہر کرکے اس کے افکار کو ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے۔ ایسے افراد کو جب تک مقدس اور محترم جانا جاتا رہے گا اور ان کے افکار کی ترویج اور تدریس کی جاتی رہے گی، دہشت گردی کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔ پیر ناصر جمیل ہاشمی نے بھی دہشت گردی کی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پشاور کا واقعہ ایسا دردناک ہے جس نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو ملکی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔ سیاسی قیادت کو اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیے۔
بطور نمونہ ہم نے علماء اور دانشوروں کے چند کلمات درج کئے ہیں اور سوال پھر باقی ہے کہ دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں، اس کے سہولت کار کون ہیں، اس کے لئے کس طرح کی فکری ساخت بنیادی کردار ادا کر رہی ہے؟ جب تک ان سوالوں کا سنجیدہ جواب تلاش نہ کیا گیا، دہشت گردی کا سلسلہ نہیں رک پائے گا۔ بعض احباب کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسلام دشمنوں کا کیا دھرا ہے، لیکن اس نظریے کے جواب میں ہمارے بہت سے علماء اور دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ طالبان، القاعدہ، داعش یا دیگر ناموں سے مسلمان معاشروں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، کیا ہم انھیں نہیں پہچانتے؟ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ جب ہم انھیں پہچانتے ہیں اور ان کی کثیر تعداد ہمارے اپنے ملکوں، قبیلوں، علاقوں اور شہروں سے تعلق رکھتی ہے تو پھر سارا الزام اغیار پر کیوں؟ جو دشمن ہیں انھوں نے تو دشمنی کرنا ہی ہے لیکن اگر یہ لوگ دشمنوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں تو پھر ان کا خاتمہ کیا جانا کیوں ضروری نہیں۔؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم دہشت گردی کا حقیقی طور پر اسلامی معاشروں سے خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی تاریخ کا ہمیں حوصلے سے ناقدانہ جائزہ لینا پڑے گا۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ جو شخص بھی اس راستے پر قدم رکھتا ہے، طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اس پر تہمتوں اور فتووں کی یلغار شروع ہو جاتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک دور ’’خلافت راشدہ‘‘ کا آیا اور پھر آمریت شروع ہوگئی، انھیں بھی یہ اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اس امر کا جائزہ لے سکیں کہ آخر وہ کیا اسباب ہوئے کہ خلافت کا دور آمریت کے دور میں بدل گیا۔ ہماری سرزمین پر یہ جسارت مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی نے کی تھی، جنھیں ایک گروہ نے ابھی تک معاف نہیں کیا۔
پہلے شخصیات کو بت بنا لیا جاتا ہے اور پھر ان کی طرف انگلی اٹھانے والے کی ا
نگلی نہیں بلکہ سر کاٹ دینے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں کون کہے کہ ماضی میں جھانک کر دیکھیں، تاکہ ماضی کے آئینے میں عصر حاضر کی صورت حال کا تجزیہ کرسکیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنے آپ کو خوارج کہلانے والے مسلمانوں کا ہی ایک گروہ تھے۔؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نواسۂ رسول ؐاور ان کے اہل بیت و انصار کو قتل کرنے والے مسلمان کہلاتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہی معاشروں میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ امام حسین ؑ کی مظلومیت کو بیان کیا جائے اور کربلا کے تذکروں کو عام کیا جائے۔
آج سانحہ پشاور پر جو دل غمزدہ ہیں، جو آنکھیں اشکبار ہیں، جو زبانیں رنج و غم کا اظہار کر رہی ہیں اور جو ہاتھ نوحے لکھ رہے ہیں، ہم ان سے گزارش کریں گے کہ اس سانحے کے اسباب کا سراغ ضرور لگائیں۔ ان افراد کو پہچاننے کی کوشش کریں جو مختلف کمزور اور گمراہ کن الفاظ استعمال کرکے اصل قاتلوں کی مذمت سے گریزاں ہیں، جو آج بھی ان سفاک قاتلوں کے خلاف کھل کر دو لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ ہماری اصل مشکل قاتل نہیں بلکہ یہی لوگ ہیں جو کل کو پھر اپنی زبانوں کے آرے مظلوموں کے خلاف چلائیں گے اور قاتلوں کو بچانے کے لئے نئی سے نئی تدبیریں کریں گے۔