پشاور کے اسکول پر طالبان کا حملہ!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
عمر خراسانی ہو یا حکیم اللہ محسود، بیت اللہ محسود ہو یا مولوی فضل اللہ؟ منگل باغ ہو یا احسان اللہ احسان، شاہد اللہ شاہد ہو یا مولوی نذیر، گل بہادر ہو یا کوئی اور، سب ظلم کی کوکھ کی پیداوار ہیں۔ سانحہ اس قدر سنگین اور افسوسناک ہے کہ اس پر لکھنے کو لفظ کم پڑ گئے۔ بے شک سارے عدل پسند حوصلے میں بھی ہیں مگر ناگہانی آفتوں پر سکتہ بھی طاری ہوا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک شعر نے ہر آنکھ نمناک کر دی۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ شوکت
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے
شعر میں پوری داستان رقم ہے۔ 16 دسمبر کی خون پرور صبح، سورج کی پھیکی پھیکی کرنیں زمین سے راز و نیاز کر رہی تھیں کہ اسی لمحے وحشی درندے آن ٹپکے اور پھر ہر طرف موت کا رقص تھا۔ طالبان نے 144ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں۔ واقعہ منگل کی صبح پشاور میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں پیش آیا، ایف سی کی وردی میں ملبوس7مسلح دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہو کر طالب علموں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے چھ حملہ آور سکول میں داخل ہوئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔
دہشت گردوں کے ترجمان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ضربِ عضب اور خیبر ون میں جاری فوجی آپریشنز میں 500 طالبان مارے گئے ہیں۔‘‘ پاکستانی سکولوں اور طالبعلموں پر طالبان دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انھوں نے روشنی اور عقل و دلیل کے ہر نشان کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ صرف 2009ء سے 2012ء تک طالبان نے سوات سمیت ملک کے دیگر حصوں میں سکولوں پر 800 سے زائد حملے کئے، اسی سے ہی ان کی علم دشمنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بے شک جہاں جہالت ہوتی ہے وہاں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ وہاں گالی ہوتی ہے اور عدم برداشت۔ اپنے فہمِ اسلام کو زبردستی پورے معاشرے پر مسلط کرنے والے کس طرح ایک معتدل اور، رواداری کی تعلیم دینے والے دین کے نمائندے ہوسکتے ہیں؟ کج رو، کج فہم!
اس امر میں کلام نہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سمیت پاکستانی طالبان کے مختلف دھڑوں نے1000 سکول جلا دیئے یا بم دھماکوں اے اڑا دیئے۔ 2011ء میں مولوی فضل اللہ کے حکم پر طالبان نے سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر فائرنگ کی، جبکہ ان کے حمائیتیوں کا کہنا تھا اور آج تک کہہ رہے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ طالبان نے نہیں کیا تھا، حالانکہ طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی مگر طالبان کے ’’سہولت کاروں‘‘ کا کہنا تھا کہ ملالہ پر حملہ اس کے والد نے خود کرایا ہے۔ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ورسک روڈ پشاور کے سکول میں بھی شہید بچوں کے والدین نے خود حملہ کروایا؟ عقل سے عاری لوگ مگر دلیل سے بات نہیں کیا کرتے ہیں۔ وہ جذبات کے پجاری ہوتے ہیں، ظواہر پرستی کا شکار، قبائلی روایات کے جھوٹے امین۔
بے شک طالبان اسلام کے نام پر درندگی کر رہے ہیں۔ بہت سی باتیں لکھنی ہیں مگر کسی اور کالم میں۔ ابھی تک سکتے میں ہوں۔ کیا انسان اس قدر بھی گر سکتا ہے؟ پوری دنیا نے اس واقعے کی مذمت کی، کافروں نے بھی، مگر ایک مولوی صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر طالبان کے اس حملے کی مذمت سے انکار کر رہے تھے۔ یہ وہی مولانا صاحب ہیں جن کے مدرسے کی طالبات نے گذشتہ ہفتے داعش کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی تھی۔ حکومت کو اور کس طرح کے سہولت کاروں کی تلاش ہے؟ یہی لوگ تو ہیں جو طالبان کے سہولت کار ہیں، انھیں دامے، درہمے، سخنے کمک بہم پہنچاتے ہیں اور ٹی وی پر بیٹھ کر اس درندگی کے لئے بھی توضیحات تلاش کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف پھر سے ایک آپریشن کیا جائے اور واقعی ’’آزاد عدلیہ‘‘ کے ذریعے ان کا ٹرائل کیا جائے تو دیکھتے ہیں کہ پھر یہ کیسے’’با عزت‘‘ بری ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم ہر سانحے پر ہنگامی اتحاد کرتے ہیں۔ قوم کے یکجا ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے، کمیٹی بنتی ہے اور کمیٹی پر ایک اور کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے اور بس۔ سادہ بات مگر یہ ہے کہ کمیٹی کس بات کی اور کیوں؟ طالبان حملہ کرتے ہیں اور اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ طالبان کے ’’سہولت کار‘‘ سامنے آتے ہیں، حملے کے لئے جواز تلاش کرتے ہیں، حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں۔ کیا حکومت اور سکیورٹی اداروں کو اب بھی طالبان کے ’’سہولت کاروں‘‘ کی تلاش ہے؟ سب کچھ آشکار ہے۔ پشاور سکول پر حملے کے بعد جو کچھ دھند میں تھا وہ بھی آشکار ہوگیا۔ قوم یکسو ہے، سیاسی قیادت بھی یکسوئی کا مظاہرہ کرے۔ کچھ کام واقعی ہنگامی بنیادوں پر کرنے کے ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ شہروں کے اندر میں ایک آپریشن کلین اپ۔ ایسا آپریشن جو اس مائنڈ سیٹ کے خلاف کیا جائے جس نے طالبانی فکر کو اسلام کی مجاہدانہ فکر بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔
ناسور کا اس کے سوا کیا علاج ہوتا ہے؟ کینسر کے پھوڑے کو کیسے ختم کیا جاتا ہے؟ آخری تجزیے میں ریاست دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیا کرتی ہے۔ کیا صرف دہشت گردوں کے خلاف؟ ان
کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی۔ پشاور سکول کے معصوم شہید ہمارے دلوں میں بستے ہیں، ان کی یادگار پر کیا صرف ان کی تصاویر ہی لگائی جائیں گی؟ نہیں، حکومت یادگار پر تصاویر کے ساتھ سانحہ کی تفصیلات اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے بارے میں بھی کنندہ کرے، اور اس فکری سلسلے کو بھی آشکار کرے جس نے میرے وطن کی مٹی کو لہو رنگ کر دیا ہے۔ اب واقعی دہشت گردوں اور ان کے حمایت کاروں کے خلاف آخری اور حتمی کارروائی کا وقت آگیا، ایک لمحے کی تاخیر بھی تباہ کن ہوگی۔