اے صاحبان جبہ و دستار اگر سن سکو تو ۔۔۔۔۔
تحریر: ندیم عباس
کل شام کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پشاور میں شہید ہونے والوں اپنے جگر گوشوں کی یاد میں چراغ روشن کرکے واپس آ رہا تھا، جیسے ہی لال مسجد کے پاس پہنچا دیکھا بہت سے لوگ جمع ہیں، پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں کھڑی ہیں، معلوم ہوا کہ لوگ مولانا کے مذمت نہ کرنے کے بیان پر ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں، مظاہرہ۔۔۔ کہاں مظاہرہ کر رہے، اس کے خلاف تو پریس کلب کے سامنے، پارلیمنٹ کے سامنے، سپریم کوٹ کے سامنے، غرض کسی جگہ بھی احتجاج کرسکتے تھے مگر یہ کیا خانہ خدا کے سامنے احتجاج۔؟
اور جب میں ان سو دو سو کے قریب لوگوں کے پاس پہنچا تو حیران رہ گیا کہ کہ ان میں اکثریت نوجوانوں اور خواتین کی ہے، کچھ نابینا لوگ بھی آئے ہوئے تھے، جو سراپا احتجاج تھے، جو نعرے بلند ہو رہے تھے، جن جذبات کا اظہار کیا جا رہا تھا، اس میں بناوٹ نہ تھی، ایسا لگتا تھا کہ ان کے دل کی آوازیں ہیں، میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار پاکستان کی مسجد کے سامنے، اس مسجد والوں کے رویے کے خلاف ااحتجاج کرتے دیکھا ہے، کسی نے کہا وہ مولانا ہے کسی نے کہا ان کی داڑھی ہے تو بلند آواز سے ایک جذباتی آواز اٹھی داڑھی تو ابوجھل کی بھی تھی، مولانا تو قتل امام حسینؑ کے قتل کے فتوے دینے والے بھی تھے، کیا داڑھی ہونے اور مولانا ہونے سے بندہ محترم ہو جاتا ہے۔؟
اگر دعویداران مذہب نے اپنا رویہ اور عمل نہ بدلا اور اسی طرح سے انسانیت کا قتل عام کرنے والوں کو جہادی کہتے رہے تو یقین جانیے ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی، جس میں مذہب سے نفرت کا عنصر غالب ہوگا، جو دین سے دور ہوگی، لوگ اب اس بات پر یقین کرتے جا رہے ہیں کہ مذہب ہی فتنہ و فساد کی جڑ ہے، مذہب کے صاف چہرے پر یہ دھبے کالی بھیڑیں لگوا رہی ہیں، اسلام دشمن تو پہلے سے اسلام کے خلاف منصوبے بنائے بیٹھے ہیں اور اگر ان نیم ملاں قسم کے لوگوں کو مساجد سے نہ نکالا گیا اور اسی قسم کے اسلام دشمن اقدامات مساجد میں ہوتے رہے تو اس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
خاتم الانبیاء (ص) کے تربیت یافتہ لوگوں کا دشمن کے بچوں کے ساتھ رویہ کیسا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں، ایک صحابی کو کفار نے گرفتار کر لیا، مکہ جا کر ان کو ایک کافر کے ہاتھ فروخت کر دیا، وہ کافر آپ پر بہت ظلم کرتا تھا، کچھ عرصہ بعد اس نے کہا ہم نے آج تمہیں قتل کرنا ہے، اسی دوران اسی مالک کا بچہ کھیلتا ہوا انکے پاس آجاتا ہے اور ان صحابی کے پاس ایک استرا بھی تھا، یہ صحابی اس بچے کو پکڑ لیتے ہیں، جب بچے کی ماں نے دیکھا کہ میرے بچے کو پکڑ لیا ہے اور استرا بھی ان کے پاس ہے، اس خوف سے کانپنے لگی کہ اب میرے بچے کی خیر نہیں، ہم نے اس پر اتنا ظلم کیا ہے، دوسرا اسے بتایا ہے کہ آج تمہیں قتل کر دینا ہے، اب تو یہ میرے بیٹے کو قتل کر دے گا۔
مگر قربان صحبت مصطفیﷺ سے فیضیاب ہونے والے نے جیسے ہی دیکھا کہ ماں پریشان ہے تو ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ جو انہیں انسانی تاریخ میں امر ہوگیا کہ یہ ہماری شان نہیں ہے کہ ہم بچوں کو قتل کریں، اس کے ساتھ ہی بچے کو چھوڑ دیا، کفار نے آپ کو قتل کر دیا، آپ کی لاش کو درخت پر لٹکا دیا گیا، مگر آپ نے بچے کو کچھ نہ کہا۔ اے اسلام کے نام پر دھبہ انسان دشمنو! احمد مصطفیﷺ کے دین کو ماننے والے حقیقی مجاہد یہ تھے، جنہوں نے کفار کے بچوں کو قتل کرنا اپنی شان کے خلاف قرار دیا اور تم وحشی درندے ہو، مسلمان اور مجاہد ہونا تو بہت دور کی بات تمہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔
اور آخر میں گذارش کرنا چاہوں گا، اے صاحبان ممبر و محراب، اے صاحب مدرسہ، اے صاحبان فتویٰ، معاشرے میں ان منفی کرداروں کی وجہ سے لوگ دین سے دور جا رہا ہیں، معاشرے کا ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح نالاں ہے، کوئی مطمن نہیں ہے، یہ الگ بات ہے خوف کی وجہ سے کچھ کہنے سے ڈرتے ہیں۔ لوگ تمہارے کردار کو مذہب سمجھتے ہیں، خدارا وقت کی آواز سنو، دین خدا کے نام پر دھبہ بننے والوں کا احتساب کرو، قبل اس کے کہ کوئی اور اٹھ کر احتساب کرے اور لوگوں تک نبی اکرمﷺ کا لایا ہوا سلامتی والا دین پہنچاو۔