کالعدم سپاہ صحابہ سے ڈیل پر علامہ ساجد نقوی کے دست راست جناب اظہار بخاری کا مؤقف
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سوشل میڈیا پر ایک مخصوص لابی اپنی روایتی منفی روش پر چلتے ہوئے ملت جعفریہ پاکستان کے ملک گیر قومی پلیٹ فارم تحریک جعفریہ پاکستان (شیعہ علماء کونسل) کیخلاف منفی پروپگنڈہ مہم چلارہی ہے کہ جھنگ کے علاقے شورکوٹ سے تعلق رکھنے والے نیئر عباس کے قتل کیس میں ملوث لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد اکرام الحق کی پھانسی کی سزاء مبینہ طور پر خٖفیہ ڈیل کرکے رکوا دی اور ملت کے شہداء کے خون سے غداری کے مرتکب ہوئے وغیرہ وغیرہ۔۔
سب سے پہلے اس کیس سے متعلق چند ضروری وضاحتیں:
جس دہشت گرد کو پھانسی دی جانی تھی اسکا نام اکرم لاہوری نہیں بلکہ اکرام الحق لاہوری ہے اور اس پر 2000 ء میں ایک مقامی شیعہ راہنما الطاف شاہ کے محافظ نیئر عباس کی ٹارگٹ کلنگ کا کیس ثابت ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ سینکڑوں شیعہ افراد اور ہائی پروفائل کیسز میں ملوث ریاض بسرا کے ساتھی اکرم لاہوری کا میڈیا پر غلطی سے اکرام الحق سے موازانہ کیا گیا حالانکہ اکرم لاہوری اس وقت سکھر جیل میں قید ہے جس کے پھانسی کے ڈیتھ وارنٹ تاحال جاری نہیں ہوئے، جس دہشت گرد کو پھانسی دی جانے تھی اور ڈیل کے زریعے اسے رکوایا گیا وہ شہید نیئر عباس کے قتل میں ملوث سپاہ صحابہ ہی کا دہشت گرد اکرام الحق تھا نہ کہ اکرم لاہوری۔
اب آتیں ہیں ڈیل سے متعلق اصل حقائق کی طرف، جس گروہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر قومی جماعت شیعہ علماء کونسل و تحریک جعفریہ پاکستان کا اس ڈیل سے جھوٹا تعلق جوڑ کر گزشتہ کئی دنوں سے بے بنیاد اور منفی پروپگنڈہ کیا جارہا ہے، درحقیقت یہ ڈیل اسی گروہ یعنی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ایک ذیلی ادارے "امام سجاد فاونڈیشن” کی جانب سے سپاہ صحابہ جھنگ و شورکوٹ کے مقامی عہدیداران کیساتھ دو شیعہ اسیران کی رہائی کے بدلے کی گئی ہے۔ جس کا آئی ایس او اور مجلس وحدت مسلمین سے تعلق رکھنے والے بیشتر ذمہ دار افراد کو خود پتہ ہے اور وہ اسکی خود نا صرف تصدیق کر رہے ہیں بلکہ اس ڈیل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے Private Email Groups اور Closed Groups کے اندر اس ڈیل کے حق میں دلائل بھی دے رہے ہیں۔ دراصل اس ڈیل میں اہم کردار ایم ڈبلیو ایم جھنگ کے راہنما مولانا اظہر کاظمی، امام سجاد فاونڈیشن کے مظہر کاظمی ایڈوکیٹ، برطانیہ میں قائم آئی ایس او کے سابقین کی تنظیم "امامینز یوکے” کے سرگرم رکن احسن شاہ و دیگر مقامی راہنماوں نے اداء کیا ہے۔ مذکورہ افراد گزشتہ دو سال سے نیئر عباس کے اہلخانہ جو انکے بقول دباو میں آکر سپاہ صحابہ سے پہلے ہی ڈیل کرنے کیلئے تیار تھے، کو بڑی مشکل سے اس بات پر راضی کیا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم آپکی نہ صرف مالی معاونت کرینگے بلکہ کیس کے بدلے سپاہ صحابہ سے ڈیل کروا کر آپکو پیسے بھی دلوائے جائنگے اور اس کے بدلے ہمارے دو شیعہ اسیران ثاقی شاہ اور لیاقت جعفری کی رہائی بھی ممکن بنائی جائیگی۔
جب یہ معاملات اندرون خانہ جاری تھے اور سپاہ صحابہ کے مقامی عہدیداران سے اس حوالے سے اس گروہ کی متعدد ملاقاتیں بھی ہو چکی تھی اور معاملات طے پار رہے تھے، اسی دوران اچانک سانحہ پشاور رونما ہو گیا اور پھر اچانک فوجی عدالتوں کے قیام اور جیلوں میں موجود سزائے موت کے منتظر دہشت گردوں کی فوری پھانسیوں کے اعلانات ہوئے تو امام سجاد فاونڈیشن سے منسلک مذکورہ افراد شدید پریشانی کا شکار ہوگئے کہ دو شیعہ اسیران جو کہ سزائے موت پا چکے ہیں اور پھانسی کی سزاء کے منتطر ہیں، انکی رہائی کیلئے کی جانے والی انکی تمام کوششیں کہیں رائیگاں نہ چلی جائیں۔۔۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ پنچاب حکومت کی جانب سے اکرام الحق کو اکرم لاہوری سمجھ کر اسکے پھانسی کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیئے گئے۔۔ یہ اعلان سنتے مولانا اظہر کاظمی، مظہر کاظمی ایڈوکیٹ اور دیگر افراد فوری حرکت میں آگئے اور سپاہ صحابہ شورکوٹ کو جھنگ کے عہدیدران کہ جن کے ساتھ اس مبینہ ڈیل کے حوالے سے بات چیت جاری تھی انکو ہنگامی طور پر پیغام بجھوایا گیا کہ ہم اکرام الحق کی پھانسی رکوانے کیلئے شہید نیئر عباس کے لواحقین کو راضی کر چکے ہیں، یہ ڈیل کا بہترین موقع ہے، اکرم الحق کو پھانسی سے بچا کر شرط یہ رکھی گئی کہ اسکے بدلے سپاہ صحابہ نیئر عباس کے لواحقین کو 35 لاکھ روپے نقد اداء کریگی جبکہ بدلے میں سزائے موت کے منتظر دو شیعہ اسیران ثآقی شاہ جھنگ اور لیاقت جعفری کو سپاہ صحابہ نے بھی 30 30 لاکھ کے عوض معافی دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور یوں جھنگ شہر کے ایک ڈیرے میں ایم ڈبلیو ایم کے مقامی عہدیدران اور سپاہ صحابہ کے مقامی عہدیدران کے مابین یہ ڈیل طے پائی جس کا علم شیخ وقاص اکرم، جھنگ کے مقامی شیعہ راہنماوں و عمائدین اور خود مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی و صوبائی عہدیدران کو بھی ہے اور وہ اسے خوش آئیند اور اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
مگر دوسری جانب اس گروہ سے منسلک بعض مفاد پرست اور شرپسند عناصر کی جانب سے اپنی سابقہ روش پر چلتے ہوئے اس ڈیل کا الزام قومی جماعت شیعہ علماء کونسل و تحریک جعفریہ پر ڈال کر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی ناکام کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس گروہ سے منسلک چند سازشی عناصر نے پہلے مرحلے میں مبینہ طور پر ہزاروں روپے دیکر میڈیا میں موجود اپنے بعض مفاد پرست عناصر کے زریعے اس ڈیل کو سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ کی ڈیل کا عنوان دیکر جھوٹی خبریں چلوائیں اور اب انہی خبروں
کو بنیاد بنا کر تحریک اور شیعہ علماء کونسل کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے مگر شاید یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ انکی ایسی تمام سازشیں جس طرح ماضی میں ناکام ہوئیں ہیں، اسی طرح اب بھی ایسے اوچھے ہتھکنڈے استمعال کرکے وہ اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکینگے۔ کیونکہ اب الحمد اللہ ملت جعفریہ کے نوجوان باشعور ہو چکے ہیں۔۔۔ سوشل میڈیا کی بدولت سب عیاں ہو رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، اب عوام کو ایسی افسوانوی کہانیوں اور منفی پروپگینڈوں کے زریعے مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
ہم اس مضمون کی وساطت سے ملت جعفریہ کے تمام پڑھے لکھے اور باشعور و دردل رکھنے والے افراد سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسے عناصر کا سماجی بائیکاٹ کریں جو ان حساس حالات میں ملت جعفریہ کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ ہمارا یہ کھلا چیلنج ہیں کہ یہاں ہم نے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ سو فیصد درست ہیں اور اگر کوئی انکی تصدیق کرنا چاہتا ہے تو وہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی عہدیدران بالخصوص انکے مرکزی سیکرٹری سیاسیات برادر ناصر عباس شیرازی، ضلع جھنگ کے راہنما مولانا اظہر کاظمی یا پھر انکے ذیلی ادارے امام سجاد فاونڈیشن کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے تصدیق کر سکتے ہیں اور ہم اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ جس ڈیل کو وہ خوش آئیند اور اپنی عظیم کامیابی قرار دے رہے ہیں اسے Closed & Confidentail Forums کے ساتھ ساتھ اوپن فارمز پر بھی OWN کرکے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملت جعفریہ سے داد وصول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرینگے۔۔۔
واضح رہے کہ دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان راولپنڈی کی جانب سے ایک آفیشل پریس ریلیز میں پہلے ہی اس ڈیل سے مکمل لا تعلقی کا اعلان سامنے آچکا ہے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔!
والسلام
کارکنان، تحریک جعفریہ پاکستان
نوٹ: مذکورہ کالم جس طرح موصول ہوا ہے اس ہی طرح شائع کیا جارہا ہے تاکہ جناب اظہار بخاری صاحب کا موقف اس ہی طرح سے لوگوں تک پہنچ سکے جس طرح سے انہوں نے چاہا ہے۔ ادارہ کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔