مضامین

آل سعود کی حکومت اندر سے بکھر رہی ہے ،ماہرین

سعودی عرب کی حکومت کے وسطی صدیوں کے ڈھانچے اور اس کے حد درجہ اندرونی انحطاط اور حکمران خاندان اور عوام کے درمیان گہرے شگاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ،اس حکومت کے جلدی ہی بکھر جانے کی پیشین گوئی کر رہے ہیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ، سعودی عرب کی حکومت اس وقت ایک سڑے ہوئے پھل میں تبدیل ہو چکی ہے کہ اس ملک کے ،اس علاقے کے اور پوری دنیا کے اندر اور باہر کے تمام ماہرین اور ناظرین اس کے ٹوٹ جانے کے بارے میں شرط لگا رہے ہیں اور اس کی الٹی گنتی گن رہے ہیں ۔ سعودی عرب کے لوگ کہ جو اس کھوکھلی حکومت کو دوسری قوموں کے درمیان اپنے لیے شرم اور سر افگندگی کا باعث سمجھتے ہیں ،اس دن کی امید میں جی رہے ہیں کہ ایک دن جب وہ سو کر اٹھیں گے تو انہیں خبر ملے گی کہ آل سعود کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔وہ خاندان کہ جس نے ان کے تمام دار و ندار پر قبضہ کر رکھا ہے ۔

ایسی حالت میں کہ جب سعودی عرب میں اس وقت ملک عبد اللہ بن عبد العزیز کے انتقال کے اس ملک میں ابتدائی ایام ہیں اور ظاہرا انتہائی سکون کے ساتھ اقتدار نئے بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کی طرف منتقل ہو رہا ہے ،ماہرین اور قلمکار سعودی عرب کے لیے سخت دنوں یہاں تک کہ اس کی حکومت کے خاتمے کی پیشین گوئی کر رہے ہیں ۔برطانوی روزنامے ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی قلمکار اور صاحب نظر رابرٹ فیسک ایک کار شناس ہے جس نے اس سلسلے میں لکھا ہے : وقت سعودی عرب کی بادشاہی کے نقصان میں گذر رہا ہے اس کے باوجود کہ عبد اللہ کے مغربی اتحادی اس حکومت کے وفادار ہیں ،لیکن سعودی عرب میں ایک انقلاب وقوع پذیر ہونے والا ہے ۔

وہ آگے چل کر لکھتا ہے : وہ انقلاب کہ جو سعودی عرب کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے وہ ایران کی طرف سے نہیں ہو گا ، یہ خطرہ سعودی عرب کے اندر موجود شیعہ اقلیت کی جانب سے بھی نیز مسلح وہابی عناصر کی جانب سے بھی نہیں ہو گا سعودی بادشاہی کو اس کے سلطنتی خاندان کے اندر سے خطرہ ہے ۔

فیسک کے لکھنے کے مطابق سعودی عرب میں حکمران خاندان کی تاریخ نفاق اور وحشیانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے ۔اور مغرب بھی جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کرتا ہے تا کہ اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کر سکے ۔

لیکن یہ صرف ٹیلیگراف نہیں کہ جس نے سعودی عرب کے خطر ناک حالات کی رپورٹ دی ہے ،بلکہ برطانیہ کے روزنامے انڈیپینڈینٹ نے بھی ایک رپورٹ میں کہ جس کا عنوان ہے ،برطانیہ ایک جابر حکمران کا سوگ منا رہا ہے ،شدت کے ساتھ سعودی عرب کے سابقہ بادشاہ کی موت پر برطانیہ کے موقف کے بارے میں تنقید کی ہے ۔ بین الاقوامی ،عفو، نے بھی برطانوی حکومت کی اس حرکت پر تنقید کی ہے اور اس کو سعودی عرب میں انسانی حقوق سے لندن کی بے توجہی کی علامت بتایا ہے ۔

فارین پالیسی نے بھی مرگ عبد اللہ اور سلمان کی بادشاہی کے آغاز پر رد عمل دکھاتے ہوئے یہ بیان کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کا نیا بادشاہ بیمار ہے اور وہ سعودی عرب کو چلانے کی طاقت نہیں رکھتا ،اس کو اس ملک کی بادشاہی کے لایق قرار نہیں دیا ۔ تقریبا ۳۰۰ سال سے تمام زیر زمینی ذخائر یا دوسرے لفظوں میں پورا سعودی عرب دو خاندانوں آل سعود اور آل شیخ میں بٹا ہوا ہے ۔یہی کوئی تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ سعودی عرب کی وزارت اموال نے اس ملک پر حکمران دو خاندانوں کے عیش و عشرت کے اخراجات کو ۴۰۰ میلیارڈ توما ن کے برابر اعلان کیاتھا کہ ماہرین کی نظر کے مطابق ان کے عیش و نوش پر خرچ ہونے والی اصلی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جس کا اعلان کیا گیا ہے ۔

ماہرین عبد اللہ کی تشییع جنازہ میں لوگوں کی معنی خیز عدم شرکت کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں ؛کہ لوگ نہ صرف شہر ریاض کے جنوب میں سلطنتی قبرستان ، العود ، میں موجود نہیں تھے بلکہ سعودیہ کے سرکاری ٹی وی جب جمعے کے دن تشییع جنازے کا پروگرام نشر کر رہے تھے تو جنازے کے اطراف میں لوگ بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے جب کہ سیکڑوں بوڑھے اور جوان شہزادے تصویروں میں دکھائی دے رہے تھے ۔اگر چہ امریکہ نے عبد اللہ کی موت کے رد عمل پر اس کو سچا دوست بتایا ،اور برطانیہ نے اس کو ایسا شخص بتایا کہ جس نے اپنی زندگی ادیان کے درمیان گفتگو کے لیے وقف کر رکھی تھی اور صہیونی حکومت کے بھی موجودہ اور سابقہ دو سر براہوں نے، عبد اللہ کی موت کو مشرق وسطی کے امن کے لیے نقصان قرار دیا ہے ۔لیکن ان میں سے کسی کی بھی دلگرمی سعودی عرب کی قوم کی جگہ نہیں لے سکتی ۔

حال حاضر میں سعودی عرب کے لوگ حکمران خاندان کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اس ملک کی اصلی مشکل مانتے ہیں اور تمام برائیوں کی اس خاندان کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

سعودیوں کے بہت بڑے خاندان کے اندر بھی اقتدار میں حصے کی خاطر شگاف دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں نیوز ایجینسی نے المیادین کے حوالے سے اس سلسلے میں رپورٹ دی ہے کہ مقرن بن عبد العزیزکی ولی عہدی کو لے کر سعودی خاندان کے اندر اختلافات دن بدن سنجیدہ نوعیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔سعودی عرب کے حکومتی خاندان میں عبد العزیز کے فرزند عمر کی بنیاد پر بادشاہی تک پہنچتے ہیں ۔

عبد العزیز کے زیادہ تر فرزند مر چکے ہیں اور باقیماندہ فرزند کافی عمر رسیدہ ہیں سال ۲۰۱۲ میں اس وقت کے ولی عہد نایف بن عبد العزیز کی موت ہوگئی تھی ۔ اس کے مرنے سے آٹھ ماہ پہلے ،سابقہ ولی عہد سلطان بن عبد العزیز کی
موت ہو گئی تھی ۔اس کے بعد ملک عبد اللہ نے ایک بے مثال اقدام کے تحت عبد العزیز کے فرزندوں کی عمر کی رعایت کیے بغیر جانشین معین کر دیا تھا عبد العزیز کا سب سے چھوٹا فرزند مقرن بن عبد العزیز ولی عہد بنا ۔ملک عبد اللہ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ اس کے اس فیصلے میں بالکل بھی نظر ثانی نہ کی جائے ۔

بہت سارے ماہرین نے ملک عبد اللہ کے اس اقدام کو اس کی موت کے بعد اختلاف پیدا ہونےسے بچنے کی سمت ایک قدم قرار دیا ۔عبد العزیز کے جو بیٹے اس کی السدیری بیوی سے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ بادشاہی ان کا حق ہے اور مقرن کہ جو ایک یمنی ماں سے ہے اس کو بادشاہ نہیں ہونا چاہیے ۔

مجتہد ، ایک فعال ٹویٹر کہ جو سعودی خاندان کی محرمانہ خبریں نشر کرنے میں مشہور ہے اس نے بھی اپنے تازہ ترین پیغام میں خبر دی ہے کہ متوفی بادشاہ کا بیٹا متعب بن عبد اللہ محمد بن نایف بن عبد العزیز کے ولی عہد بنائے جانے سے غضبناک ہے ۔

اس رپورٹ کی بنیاد پر متعب کا یہ کہنا ہے کہ اس کے رقیب محمد بن نایف نے اس کے خلاف وہی چال چلی ہے کہ جواس کے باپ عبد اللہ نے احمد بن عبد العزیز کو بر طرف کرنے کے لیے چلی تھی یعنی پہلی بار ولی عہد کا جانشین مقرر کرنا ؛اب محمد بن نایف ولی عہد کا جا نشین ہے اور عبد العزیز کے بیٹوں کے بعد پہلا شہزادہ ہے کہ جو سلطنت سے ایک قدم کے فاصلے پر ہے ۔

مجتہد آگے چل کر لکھتا ہے : کچھ اور کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ نئے ولی عہد مقرن بن عبد العزیز کو معزول کرنا ان کا حصہ ہو گا ،لیکن باقی اقدامات کو میں اس وقت فاش نہیں کر سکتا اس لیے کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ اقدامات متوقف ہو جائیں اس لیے کہ ان میں سے کچھ اقدامات میں لوگوں کے لیے خیر نہفتہ ہے ۔

ا ن تمام تمام تبدیلیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آل سعود گویا اپنی زندگی کے آخری ایام کے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button