مضامین

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، مگر یہ ذکر وفا صبح و شام کس کا ہے؟

تحریر: ارشاد حسین ناصر

انقلاب اسلامی ایران کے قیام اور اس کے پیغام کی توسیع و ترویج نیز استحکام و سلامتی کیلئے ملت شہید پرور اہل ایران نے جتنے شہداء دیئے ہیں ان کا شمار ممکن نہیں، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں، یہ معاملہ تھکنے والا نہیں، یہ چراغ بجھنے والا نہیں، یہ سورج غروب ہونے والا نہیں، قربانیاں آج بھی دی جا رہی ہیں، ایثار کے نمونے آج بھی پیش کئے جا رہے ہیں، شہادتوں کی داستانیں آج بھی رقم کی جا رہی ہیں، گردنیں آج بھی کٹوائی جا رہی ہیں، سینے آج بھی چھلنی ہوتے ہیں، شہداء کا مقدس خون آج بھی لالہ و گل بن کر گلستان اسلام کو معطر کر رہا ہے، لبنان، شام، عراق، یمن، افغانستان، پاکستان، بحرین، حجاز مقدس اور دنیا بھر میں شہادتوں کی داستانیں رقم کرنے والے فرزندان خمینی کے ولولے اور جذبے اسلام خالص محمدی کی بقا کے ضامن بن چکے ہیں۔ چمن اسلام خالص محمدی کی سرحدوں کو محدود کرنے کے خواہش مندوں نے اسے روکنے کیلئے آٹھ سال تک جنگ مسلط کئے رکھی مگر ناکام رہے، نامراد رہے۔ بھلا سورج کو کوئی روشنی بکھیرنے سے روک سکا ہے، کوئی ہے جو چودھویں کے چاند کو رات کی تاریکی میں اپنی آب و تاب سے چمکنے سے روک سکے، کوئی ہے جو خوشبو کو مہکنے سے روک سکے۔

مکہ و مدینہ سے نکلنے والے نور کے منبع کو عرب کے جاہل روکنا چاہتے تھے، مگر کسی کا بس چلا نہ کامیابی ملی۔ انقلاب اسلامی ایران بھی امام خمینی کی ر ہبری میں گذشتہ صدی کا نور کا وہ انفجار تھا جس کی کرنیں جہاں جہاں بھی گئیں، ماحول کو منور کر دیا۔ اس کا نظریہ و فکر خوشبو کی طرح مہکا اور اپنا ہالہ بنا کر بہت سے ممالک، معاشروں اور شخصیات کو جذب کر گیا۔ تاریخ نے یہ بات ثابت کر دی کہ نظریات کو پابند نہیں کیا جاسکتا، افکار پر پہرے لگانا کامیابی کی نوید نہیں ہوتی۔ جس قوم میں موت کا ڈر اور خوف ختم ہوجائے، اسے مٹانا ممکن نہیں رہتا بلکہ اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ امام خمینی کی ذات اور نظریات میں وہ جاذبیت اور کشش تھی، جن پر فدا ہونے والے اس جہاں میں ان کی زندگی میں بھی ان گنت لوگ تھے اور آج بھی تمام طبقہ ہائے زندگی سے ان کا شمار ممکن نہیں۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو یوں تو مختلف زاویوں سے دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ہر شعبہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا، مگر انہیں اگر ایک عاشق امام خمینی، ایک فدائی امام خمینی کے طور پر دیکھیں تو باقی تمام ابواب بھی خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ انقلاب سے پہلے انقلاب کے مبلغ اور فکر خمینی کے پیامبر تھے، وہ انقلاب کی چکا چوند سے انقلابی نہیں بنے تھے، بلکہ انقلاب کیلئے کی جانیوالی جدوجہد، تحریک اور نہضت کے اولین دن سے حامی، مددگار اور شریک کار تھے۔ انہیں اگر انقلاب سے بے لوث وابستگی، اس کیلئے کی جانے والی زحمات اور کارہائے نمایاں کی بنیاد پر سفیر انقلاب کہا جاتا ہے تو ان کا شمار شہدائے انقلاب اسلامی میں ہی کیا جائے گا۔ اس میں کسی کو شک و تردد نہیں ہے کہ انکی شہادت کے اسباب میں بھی انقلاب سے وابستگی، امام خمینی کی ذات سے عشق اور ان کے سیاسی و فکری و دینی نظریات کی ترویج و تبلیغ شامل تھے۔

کسی دوست نے انہیں ان تھک مبارز کے عنوان سے یاد کیا تھا، جو انکی مجاہدانہ اور مبارزانہ زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے بالکل درست عنوان ہے۔ ہم سے بڑے انہیں چمران پاکستان کہا کرتے تھے، ہم نے اس جملہ کو سن کر چمران شہید کی شخصیت کے بارے میں آگاہی حاصل کی، تاکہ ڈاکٹر شہید کے بارے بھی شعور پا سکیں۔ واقعاً وہ پاکستان کے چمران تھے، انہوں نے پاکستان میں تعلیمی، فلاحی، تنظیمی، رفاہی، طبی، اجتماعی الغرض ہر شعبہ زندگی میں فعالیت اور بہتری لانے کی اپنی طاقت سے بڑھ کر کاوشیں کیں اور اسی راہ میں چلتے ہوئے شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوئے۔ ساتویں مارچ 1995ء کا سورج پاکستان کی ملت پر قیامت ڈھا گیا، جب انہیں اسپتال جاتے ہوئے یتیم خانہ چوک میں استعمار کے نمک خواروں نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ان کے ساتھ ان کے باوفا محافظ آغا تقی حیدر اور راہ گیر شیعہ بچہ سبطین رضا بھی شہادت سے ہمکنار ہوئے جبکہ کئی لوگ گولیوں کی بوچھاڑ کی زد میں آکر زخمی ہوئے۔

ڈاکٹر شہید کی زندگی لگ بھگ تینتالیس برس پر مشتمل ہے، شہید قائد بھی تقریباً اتنے ہی تھے مگر ان کے کام صدیوں پر محیط ہیں اور یاد رکھے جائیں گے۔ زمانہ انہیں خراج عقیدت اور تحسین پیش کرتا رہیگا، آنے والی نسلیں ان کی راہ پر چلتی رہینگی اور حق کا علم بلند کرتی رہینگی، تاوقیکہ وہ ہستی تشریف نہیں لے آتی، جس کے ظہور و آمد کیلئے زمینہ سازی کرتے ہوئے امام خمینی نے اسلامی انقلاب برپا کیا اور ڈاکٹر شہید جیسے کئی سپوت اس زمینہ سازی میں مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگاتے رہے، یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہیگا، شہادتوں کی داستانیں رقم ہوتی رہینگی، جب ڈاکٹر صاحب شہید ہوئے اس وقت شہداء کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی، ان کی شہادت کے بعد اس ملت پر کئی قیامتیں ڈھائی گئیں اور اجتماعی قتل عام کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ نئے انداز سے شروع ہوگیا، صرف پاراچنار میں ہی تین ہزار شہداء چند برس میں ملت نے پیش کئے۔ کوئٹہ میں قیامت کے کئی مناظر سامنے آئے، کراچی مسلسل دشمنان ملک و ملت کے نشانہ پر ہے، جہاں اجتماعی قتل عام کیساتھ ساتھ قیمتی شخصیات کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کربلا کا منظر
پیش کر رہا ہے، پشاور تسلسل سے حسینیوں کے خون سے رنگین کیا جا رہا ہے۔

الغرض شہر شہر میں قیامت کا سماں ہے، ہر زمیں کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے، اصولی طور پر شہداء کی اتنی بڑی قربانیوں کے ساتھ ہماری ملت کو بیدار اور آمادہ و منظم ہونا چاہیئے تھا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا، اس میں کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے؟ تنظیموں، جماعتوں، قیادتوں، علماء، عمائدین، انجمنوں، ماتمی دستوں یا ذاکرین و خطباء کو ۔۔ شائد سب کی ذمہ دای بنتی تھی کہ شہداء کا پیغام عام کرتے، شہدا ء کی عظمت و اہمیت واضح کرتے، شہداء کے آثار و افکار سامنے لاتے، ہم نے ایک ایک گھر سے تین تین لاشیں اٹھائی ہیں۔ پہلے ہمارے پاس ایسی کوئی مثال نہیں ہوتی تھی اور ہم اپنے نوجوانوں میں بیداری لانے اور جذبہ ایثار و قربانی پیدا کرنے کیلئے ایسی مثالیں انقلاب اسلامی ایران اور جانثاران و فدائیان امام خمینی کی دیا کرتے تھے، مگر اس عرصہ میں اب ہم ایسے کئی خاندان اور گھرانے پیش کرسکتے ہیں، جن کے خاندان کے تمام جوان اور بزرگان تک راہ حسینؑ میں قربان کر دیئے اور ملت کو سرخرو کرگئے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ شہداء کی بدولت ہم سرخرو اور عزت مند ہیں۔ اگر ہمارے شہداء نہ ہوتے تو ہم کسی بھی صورت سرخرو نہ ہوتے۔ ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم نے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان جیسے عظیم شہداء کو قربان کرکے استعمار کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اور کسی کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ ہم پر زبان دراز کرسکے، بقول شاعر

زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں

اگر ہم نے کامیابی حاصل کرنا ہے، تو لازم ہے کہ شہداء کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ شہداء کو بھول جانے والی قومیں کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتیں۔ اگر کامیابی مل بھی جائے تو عارضی ہوتی ہے۔ ملت ایران نے اس حوالے سے ثابت کیا ہے کہ وہ شہادتوں سے گھبرائے نہیں، نہ ہی پیچھے ہٹے، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے لاکھوں شہداء کے بعد آج بھی انہیں یہ سبق بھولا نہیں، انقلاب کی کامیابی اور مضبوطی انہی شہداء کی بدولت ہے، جو ایران سے لیکر لبنان، شام، عراق، یمن اور دنیا کے کئی ممالک میں استعمار کے نمک خواروں کے ہاتھوں سامنے آتی ہیں۔ ملت ایران کا اعزاز ہے کہ انہوں نے شہداء کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا۔ آپ کسی بھی شہر کے گلزار شہداء (شہداء کا قبرستان) میں جائیں، بالخصوص جمعرات کے دن تو حیران رہ جائیں گے کہ جس معاشرے کو امریکہ و استعماری قوتیں سیکولر و آزاد بنانے کیلئے صبح و شام سازشیں کر رہی ہیں، وہ شہداء کی بدولت کس قدر دین دار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای بہشت زہراء میں جا کر شہداء کی قبور پر حاضری دیتے ہیں، شہداء کے گھروں میں تشریف لے جاتے ہیں، انہیں احساس تنہائی نہیں ہونے دیتے۔ ایران بھر میں خانوادگان شہداء و مجروحین جانبازان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے گھر کے تمام مسائل قومی ادارہ بنیاد شہید حل کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنے شہداء کو اس انداز میں اہمیت نہی دی، جس کے وہ حقدار تھے۔ شہداء کے خانوادوں کو ان کا صحیح حق نہیں دیا۔ اگر یہ بات کروں تو شائد کسی کو بری لگے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سے قائدین و رہنما، پاکستان کے بزرگ شہداء جن میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی شامل ہیں، کے مزارات پر جانا اور حاضری دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں، اور شائد انہیں اس کی فرصت بھی نہیں۔

مگراس بات کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے پاس آج جو کچھ بھی ہے، انہیں شہداء کی بدولت ہے، اگر یہ شہداء نہ ہوتے تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوتا، جو احباب ان شہداء کی یاد مناتے ہیں، خداوند کریم انہیں سلامت رکھے اور اپنے پاس سے اس کا اجر دے۔ یہ احباب اب بھی ڈاکٹر شہید کو نہیں بھولے نہ ہی انہیں بھلایا جاسکتا ہے۔ ہر سال ان کی برسی پہلے سے زیادہ خوبصورت انداز میں مناتے ہیں، ملک بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ انہیں دوستان و عاشقان ڈاکٹر کی

بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ
وہ مطمئن تھے بہت قتل کرکے محسن کو
مگر یہ ذکر وفا صبح و شام کس کا ہے

نوٹ: پاکستان میں شہداء کے خانوادگان کی کفالت و سرپرستی کیلئے بنیاد شہید ایران کی طرز پر شہید فاؤنڈیشن پاکستان بہترین انداز میں کام کر رہی ہے، جو بے حد حوصلہ افزا و قابل تحسین ہے۔ خداوند کریم ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ہم سب کو اس قومی ادارہ کی بھرپور کمک کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button