مضامین

تشکیل پاکستان اور شیعوں کا کردار

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح رسول۰ اور اہلِ بيت کي کوششوں سے مسلمانوں کو پوري دنيا ميں عزت و حکمراني حاصل ہوئي ليکن انہيں اور ان کے ماننے والوں کو فراموش کرديا گيا۔ نہ صرف يہ کہ انہيں حکومتوں سے الگ رکھا گيا بلکہ ان کي خدمات کو بھي يکسر طور پر فراموش کرديا گيا۔ 

يہي کچھ پاکستان کے قيام کے حوالے سے ہوا۔ تشکيلِ پاکستان ميں شيعيانِ عليٴ کاجو کردار رہا اور جس طرح اہلِ بيتٴ کي تعليمات کي روشني ميں اور اہلِ بيتٴ کے متوالوں نے جس طرح اس تحريک کو اپنا خون دے کر پروان چڑھايا بالکل اس کے برعکس ان ہي لوگوں کو تحريک پاکستان کے باب سے حرفِ غلط کي طرح مٹا ديا گيا-

1- سرسيد احمد خان نے 1890 ميں ‘کميٹي خواستگارانِ ترقي تعليم مسلمانانِ‘‘ قائم کي۔ اس کميٹي نے فيصلہ کيا کہ مسلمانوں کي اعليٰ تعليم کے لئے ايک کالج کھولا جائے۔ چنانچہ ‘محمڈن کالج فنڈ کميٹي‘‘ قائم ہوئي۔ اس فنڈ ميں سرمايہ کي فراہمي اور پھر يونيورسٹي کے قيام ميں جن شيعيانِ عليٴ نے نماياں خدمات انجام ديں، ان ميں سالارِ جنگ حيدرآباد خليفہ محمد حسن، وزيرِ اعظم پيٹالہ نواب صاحب رام پور، سر فتح علي قزلباش، مہاراجہ سر محمد علي خان محمود آباد، مولوي سيد حسين علي بلگرامي، بہادر حسين بخش، مير تراب علي آگرہ اور جسٹس سيد امير علي شامل تھے۔

 

2-حيرت انگيز بات يہ ہے کہ سرسيد کے خلاف جو محاذ کھڑا ہوا اُس ميں مولانا قاسم نانوتوي (سرپرست ديوبند)، مولانا رشيد احمد گنگوہي، مولانا حالي، شبلي نعماني اور ابو الکلام آزاد جيسے علمائ شامل تھے۔ آپ کے خلاف فتاويٰ بھي جاري ہوئے لامذہب، کرسچين، دہريا، کافر، دجال وغيرہ کہہ کر مخاطب کيا گيا۔ سر سيد احمد خان کو جب شديد مخالفت کا سامنا ہوا تو سر سيد احمد خان نے تمام ہندوستان کو چھوڑ کر ‘علي گڑھ‘‘ کو منتخب کيا جس کي وجہ وہ خود بتاتے ہيں۔
علي گڑھ۔۔ وجہ تسميہ

يہ شہر آگرہ۔۔ بھرت پور کے علاقے کي سادات کي بستيوں کے قريب ہے جس کے رئيس شيعہ ہيں۔ مجھے ان تمام لوگوں سے اور ان کي اولادوں سے بھي زيادہ توقع ہے کہ يہ سب نہايت دل سے مدرسہ کے حامي اور سرپرست رہيں گے۔ يہ خاص صفت جو ميں نے علي گڑھ کي نسبت بيان کي اور جس کو سب سے اعليٰ اور مقدم سمجھتا ہوں، ميں نہايت مضبوطي اور تقويت سے کہہ سکتا ہوں کہ تمام اضلاع شمال اور مغرب ميں، کسي دوسري جگہ نہيں ہے۔ بس ان وجوہات سے ميں نے علي گڑھ کو دارالعلوم بنانے کے لئے عمدہ مقام تجويز کيا ہے۔ اب ميں اپني رپورٹ کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ ‘علي گڑھ‘‘ ايک پيارا نام ہے۔ ہمارے پيغمبر رسول۰ کا يہ قول مشہور ہے کہ ‘انا مدينۃ العلم و علي بابھا‘‘۔۔ پس يہ پہلا ‘مدرسۃ العلوم‘‘ ہم مسلمانوں کا جو درحقيقت علم کا دروازہ ہوگا علي گڑھ ميں ہي ہونا چاہيے۔ (سيد احمد سي۔ ايس۔ آئي سيکٹري).(مقالات سرسيد جلد شانزدہم صفحات ٧٦٤ تا ٧٧١)

3-سندھ مدرسۃ الاسلام ، کراچي
1884ميں جسٹس سيد امير علي کي کوششوں سے کراچي ميں بھي ايک مدرسہ قائم کيا گيا جو علي گڑھ کي طرز پر تھا اور اس کا نام ‘سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ رکھا گيا۔ قائد اعظم محمد علي جناح بھي اسي مدرسہ کے طالب علم رہے ہيں۔
4-اسي طرح کا مدرسہ بنگال ميں ہگلي کے مقام پر قائم ہوا۔ جس ميں ايک حصہ امام باڑہ کے لئے بھي مختص تھا۔

5-راجہ صاحب محمود آباد-
کہتے ہيں، پاکستان سرسيد احمد خان کي تعليمي خدمات ، قائد اعظم کي رہنمائي اور راجہ صاحب محمود آباد کي دولت کے مرہونِ منت ہے۔

6- علامہ اقبال
مغرب کي عياشي اور سہل پسندي کي زندگي کو جب ديکھتے تو ايران کي عزاداري کو اس کا ترياق سمجھ کر لوگوںکے سامنے پيش کرتے اور کہتے
سازِ عشرت کي صدا مغرب کے ايوانوں ميں سن
اور ايراں ميں ذرا ماتم کي تياري بھي ديکھ۔۔!
آپ مذہبِ تشيع سے تعلق رکھتے ہيں اور شک يقين ميں بدلنے لگتا جب لوگ ان کا يہ شعر پڑھتے
اسلام کے دامن ميں بس اس کے سوا کيا ہے
اک ضربِ يد اللّٰہي ايک سجدہ شبيري
اس شک کا اظہار انھوں نے بالآخر کرہي ڈالا
ہے اس کي طبيعت ميں تھوڑا سا تشيع بھي
تفضيلِ عليٴ ہم نے سني اُس کي زباني۔۔!
ليکن جب ان کے صبر کا پيمانہ لبريز ہوگيا تو بالآخر وہ اپنے مذہب کا اقرار کرہي بيٹھے
پوچھتے کيا ہو مذہب ِ اقبال
يہ گناہ گار بوترابي ہے۔۔!

7-قائد اعظم محمد علي جناح
قائد اعظم محمد علي جناح ايک غير متعصب شيعہ تھے۔ مذہبِ اہلِ بيت سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھي آپ نے کسي فرقے کي ضرور ت سے زيادہ حمايت نہيں کي۔

تبليغي شيعہ
قائد اعظم محمد علي جناح نہ صرف يہ کہ اثنائ عشري شيعہ تھے بلکہ انھوں نے آغا خان کو يہ ترغيب دينے کي کوشش بھي کي کہ وہ اسماعيليوں کي سربراہي سے سبکدوش ہوکر اثنا عشري جماعت ميں شامل ہوجائيں۔ (شاہراہِ پاکستان صفحہ ٥٢٠)

8- اخبار:
پاکستان کا پہلا انگلش اخبار DAWN۔ اس ميں اہم کردار قائد اعظم، راجہ صاحب محمود آباد اور اصفہاني برادران نے ادا کيا۔

٩-بينک:
پاکستان کا سب سے پہلا بينک ‘حبيب بينک‘‘ شيعہ (خوجہ فيملي) کے مرہونِ منت تھا۔ جبکہ دوسرا بينک ‘مسلم کمرشل بينک‘‘ قائد اعظم کي خواہش اور سر آدم جي داود اور مرزا احمد اصفہاني کي کوششوں کے نتيجے ميں وجود ميں آيا۔

١٠- PIA:
قائداعظم کے کہنے پر مرزا ابوالحسن اصفہاني نے اپنے بڑے بھائي مرزا احمد علي اصفہاني، سر آدم جي سے مشورہ کيا اور اس طرح تقسيم سے ق
بل پہلي مسلم ہوائي کمپني يعني ‘اورينٹ اےئرويز‘‘ نے باقاعدہ پروازيں شروع کرديں۔ جو بعد ميں PIA کے نام سے مشہور ہوئي۔

11-ايران کا کردار
پاکستان بننے کے بعد جس ملک نے پاکستان کو سب سے پہلے تسليم کيا اور جس کے وفد نے پاکستان کا دورہ کيا وہ کوئي اور ملک نہيں تھا بلکہ شيعہ اکثريتي آبادي والا ملک ايران تھا۔ —

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button