یمن سعودی تنازعہ اور ایران ترکی اتفاق
تحریر: تصور حسین شہزاد
ترکی کے صدر طیب اردگان کے دورہ ایران کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے مہمان ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ترکی اور ایران کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جاری جنگی تنازعہ فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ یمن میں جنگ بندی کر کے خون ریزی کی روک تھام کی جائے۔ دونوں صدور نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ ان کے درمیان عراق، شام اور فلسطین کے مسئلہ پر طویل بات چیت ہوئی ہے۔ اس گفتگو کے دوران وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سعودی یمن تنازعے کا فوری حل یہ ہے کہ جنگ اور خونریزی کا سلسلہ بلاتاخیر بند کیا جائے۔ ترکی اور ایران اس خیال کے حامی ہیں کہ علاقائی عدم استحکام اور عدم تحفظ کی موجودہ لہر فوری طور پر نہ روکی گئی تو پورا خطہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ جس سے پوری مسلم دنیا کے تباہی سے دوچار ہو جانے کا خطرہ ہے۔
ادھر گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ پارلیمنٹ سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں کہ کیا اقدام کیا جائے۔ پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت اس پر عمل پیرا ہو گی جبکہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش میں ہیں کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کو ہر قسم کی فوجی امداد دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے ایک وفاقی وزیر کے حوالے سے خبر جاری کی ہے کہ پاکستان سعودی عرب میں فوج بھجوانے کافیصلہ کر چکا ہے۔ اب تو صرف ٹروپس کی تعداد اور آلات حرب کی تفصیلات طے کرنا باقی ہیں۔ اس خبر کی تصدیق سعودی عرب کی وزارت دفاع کے ترجمان کے حوالے سے سعودی میڈیا میں آنے والی یہ اطلاعات بھی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نہ صرف 10 رکنی خلیجی دفاعی فورسز کے اتحاد میں شمولیت کی پیش کش کر چکا ہے کہ بلکہ وہ اپنے فوجی دستے بھی سعودی عرب بھیجنے پر تیار ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں خواجہ آصف کا بیان اس کے برعکس ہے۔ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی زیرقیادت وفد میں سعودی عرب کا دورہ کر کے جائزہ لیا گیا کہ ان کی کیا ضروریات ہیں اور ہم کس حد تک ان کو پورا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے وزیردفاع کے بیان کو ہی "تھوڑے کو زیادہ جانو” کے مصداق کہنے پر اتفاق کیا اور پیش کش کی کہ اگر اراکین پارلیمان زیادہ کچھ جاننے کے خواہش مند ہیں تو اس کے لئے ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ راز کی باتیں بھری بزم میں کہنے سے بہت سے مسائل سر اٹھائیں گے جن سے مزید قباحتیں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم کا یہ انداز بیان سعودی عرب اور عالمی میڈیا میں زیرگردش ان خبروں کی توسیع کے مترادف ہے جس میں پاکستان کے خلیجی فورسز میں شمولیت کی تیاری کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ مصر کی فوج کے سربراہ کا دورہ پاکستان بھی اپنے اندر بہت سے مضمرات لئے ہوئے ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلہ میں اپنی کوششوں بالخصوص ترکی کے حوالے سے جو اچھی خبریں آنے کی نوید دی ہے وہ گزشتہ روز ترکی کے صدر کے دورہ ایران کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ جس میں ترک صدر نے ایرانی ہم منصب کے ساتھ شرق الاوسط کے تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مذاکرات کی سبیل پیدا کرنے عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ بھی اسی چیز کی خواہاں ہے کہ پاکستان ترکی کے ساتھ مل کر خطے میں انسداد جنگ و خون ریزی کے لئے کوشش کرے۔
اس حوالے سے خبریں ہیں کہ پارلیمنٹ آج کل میں ایک قرار داد پاس کرنے والی ہے جس کے تحت پاکستان جنگ میں فریق بننے کی بجائے متحارب فریقین کے درمیان مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گا۔ شنید ہے کہ حکومت آئندہ سعودیہ میں فوج بھیجنے کے تناظر میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا بھی سوچ رہی ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ نواز شریف حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کیوں کہ حزب اختلاف کی طرف سے اٹھائے گئے اہم نقاط کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ خاص طور پر ایوان ہائے اقتدار میں زیر گردش یہ سوال حکمران جماعت کے لئے سوہان روح ہے کہ اس نے برسر اقتدار آتے ہی ڈیڑھ بلین ڈالر کو جو تحفہ سعودی عرب سے موصول کیا تھا وہ یمن پر سعودی عرب کی چڑھائی کے بعد اسے دی جانے والی متوقع فوجی امداد عوضانہ تھا۔ دوسری طرف ایک اور تاثر ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ حکومت سعودی عرب میں کام کرنے والے 15 لاکھ پاکستانیوں کی طرف سے ہر سال موصول ہونے والے 8 ارب ڈالر کے حکم کا زردمبادلہ اور دیگر خلیج کی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی طرف سے ملنے والے زرمبادلہ کی رقومات پر بھی انحصار کرتی ہے۔
اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب کی زیر قیادت یمن میں جنگ آزما اتحاد فورسز کا حصہ ہیں۔ اگر پاکستان اس موقع پر ذرا لیت و لعل سے کام لیتا تو اسے پوری خلیجی ریاستوں کی طرف سے مزاحمت اور جوابی کارروائیوں سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا اس وقت پاکستان سخت مشکلات سے دوچار ہے اور فیصلہ سازی کے اس نازک ترین مرحلے پر اسے قحط الرجال کا سامنا ہے۔ کیوں کہ اب تک پاکستان کی کوئی سول حکومت دفاع اور خارجہ امور میں اپنی مرضی سے نہیں چل سکی۔ اسے آج بھی دونوں شعبوں میں مقتدر قوت
وں کی منشا و مرضی کے مطابق اقدام کرنا مجبوری ہے۔ خاص طور پر جب امریکہ بھی یمن کےمسئلے پرسعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو۔ حالانکہ سعودی عرب کی یمن میں عسکری مداخلت کوئی نئی بات نہیں، حیران کن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 60 کی دہائی میں سعودی عرب نے جنوبی یمن میں انہی زیدی شیعہ کی حمایت میں اپنی فوجیں روانہ کی تھی جو آج حوثیوں کے ساتھ مل کر "باغیوں” کی صف میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو آل سعود بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کے ساتھ ترجیحات کا تعین کرتے رہتے ہیں اور انہی ترجیحات کے تحت ایک طرف وہ ایران کے خلاف اسرائیل کے ہمنوا بن کر سامنے آتے ہیں اور کبھی انہیں مصر میں اخوان المسلمین کے سنی مسلمانوں کے مقابلے میں مصر کی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے ممدوح اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے اپنی ترجیحات و نظریات تبدیل کرتے رہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو پاکستان کو ایسی کیا افتاد پڑی ہے کہ وہ ایک ایسی جنگ میں کودے جس سے اس کی سالمیت اور ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ فیصلہ سازی کے اس مرحلے میں ہمیں اپنے ملکی مفاد کے تابع حکمت عملی اپنانا ہو گی۔