درباری ملاّ
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی
اسلام میں بادشاہت نہیں تو پھر شاہی و درباری ملاّ کی کیا حیثیت ہے، لیکن آج عجیب دور ہے، بادشاہوں نے مقدس عناوین اختیار کر لئے اور مشائخ کے چُولے زیب تن کر لئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ، اہل بیت اطہارؓ، اجداد رسول، والدین پیغمبر، عماتِ نبیؐ کے روضے اور قبور پامال کرنے والے ’’خادم حرمین شریفین‘‘ کے نام سے تخت نشین ہیں اور اپنے شاہی کرّوفر کے فروغ کے لئے کمزور ہمسایوں پر یلغار کرکے اسے تحفظ حرمین کی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ شاہی و درباری ملاّ انہی شاہی دعووں کو سچ ثابت کرنے کے لئے اھلاً و سھلاً کے شور میں، ہمیں بھاشن دیتے پھرتے ہیں۔ جنھوں نے پہلے اسلام کے مقدس مقامات پامال کئے ہیں، انہی سے آج بھی اسلام کے مقدس مقامات کو خطرہ ہے، لیکن شاہی ملاّ پاکستان میں آکر فرما رہے ہیں کہ پاکستانی عوام کا نقطۂ نظر پاکستان کی پارلیمنیٹ سے مختلف ہے۔ ہم گذارش کریں گے کہ سرکار آپ کی درباری نوکری کا یہی تقاضا ہے۔ ’’حکم حاکم مرگ مفاجات‘‘ اسی کو His master’s voice کہتے ہیں۔ آپ کے ہاں چونکہ شاہی فرمان ہی آئین و قانون ہوتا ہے، اس لئے آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکتی کہ پارلیمینٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی متفقہ قرارداد کیا ہوتی ہے۔
آپ کے ہاں نبی کریمؐ کی سرزمین کا نام ایک قابض خاندان کے نام پر ’’المملکۃ السعودیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ ہمارے وطن کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ وہاں اسی خاندان کے بادشاہ چلے آرہے ہیں۔ ستر اسی برس سے عبدالعزیز اور اس کے بیٹوں کی حکومت چلی آرہی ہے، لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں آئین ہے، جس کے مطابق انتخابات ہوتے ہیں، لوگ اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ پارلیمینٹ کے متفقہ فیصلے اس سرزمین کے اجتماعی ضمیر اور اجتماعی شعور کی غمازی کرتے ہیں۔ شاہوں کے دریوزہ گر اور نوکر آئینی حکومتوں کے چلن کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ سعودی عرب میں حنبلیوں اور سلفیوں کی اقلیت نے باہمی اشتراک سے حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے، جبکہ وہاں حنفی، شوافع، مالکی اور شیعہ بھی رہتے ہیں، جن کا حکومتی امور میں کوئی عمل دخل نہیں۔ انھیں زبردستی دبا کر رکھا گیا ہے، اسی کو بادشاہت کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہندو، سکھ اور عیسائی بھی ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ عمرے کے لئے مفت ٹکٹ بانٹے جا رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ تجوریوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ پٹروڈالر سے حکومتوں تک کو خریدنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر کے جنرل سیسی کے اقتدار کے لئے اربوں ڈالر دیئے گئے، تاکہ اس کی فوج شاہوں کی حمایت میں پیش پیش ہو۔ پاکستان کے اہم خاندانوں کو پناہ دے کر اب احسانات کی قیمت چکانے کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ حرمین شریفین کو یمن کے مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں، جنھیں آتش و آہن کی بارش سے خاک و خون میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ ایک پس ماندہ اور غریب قوم کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے والوں نے کبھی ایک گولی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں نہیں چلائی۔ پاکستان میں جن ملاؤں کو لانچ کیا گیا ہے کہ وہ پارلیمینٹ کے خلاف ہرزہ سرائی کریں، انھیں پاکستان کے عوام خوب پہچانتے ہیں۔ یہ بکاؤ مال کب تک آپ کے کام آئے گا۔ کہیں اور سے بہتر مال مل جائے گا تو اس کے گیت گانے لگیں گے۔
رہی پاکستان کی فوج تو اس نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں تو ضرور اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ ایک غیرت مند فوج ہے، کسی مظلوم مسلمان قوم کو کچلنے کے لئے اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ پاک فوج اپنی سرزمین سے دشمنوں کے ایجنٹوں کو پاک کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور جب سے اس نے ضرب عضب کا آغاز کیا ہے، وطن عزیز میں دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں اور ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے عوام میں اعتماد اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اب جبکہ پاکستان چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے معاہدے کرچکا ہے اور پاک فوج ان معاہدوں پر عملدرآمد کے لئے حفاظت کی نئی ڈھال قائم کرنے کے عزم کا اظہار کرچکی ہے تو اس سے ظاہر ہوجانا چاہیے کہ اس نے اپنے لئے کس رخ اور سمت کا آغاز اور انتخاب کیا ہے۔ پاک فوج پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے سفر میں اپنا شعوری کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
یہ کرائے کی فوج نہیں ہے کہ اسے بادشاہوں کی مرضی سے جہاں چاہے بھیج دیا جائے۔ لہٰذا درباری ملاؤں کو چاہیئے کہ اپنے لے پالکوں کی ’’اھلاً و سہلاً‘‘ سنیں، اِدھر اُدھر سیر سپاٹا کریں، چند مزید بے تاثیر بھاشن دیں اور تجوری خالی ہوجائے تو واپس جا کر بادشاہوں کو سب خیر و خیریت کی خبر دیں۔ پاکستان اب حقیقی آزادی کے سفر پر رواں ہوچکا ہے۔ جمہوریت مستحکم سے مستحکم تر ہو رہی ہے۔ میڈیا میں آزاد اندیش افراد بڑی تعداد میں داخل ہوچکے ہیں۔ پارلیمینٹ اجتماعی شعور کا پہلے سے بہتر مظاہرہ کر رہی ہے اور ایسے سیاسی راہنماؤں کی کمی نہیں کہ جن کے مفادات کا تعلق مڈل ایسٹ کے بادشاہوں اور شیوخ سے نہیں اور جو اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔