سعودی پاکستانی بھائی بھائی، حسن نثار کا تجزیہ
سبحان اللہ ….. چشم بدور امام کعبہ جناب خالد الغامدی نے ایک ایسی سچائی بیان فرمائی ہے کہ میری روح تک خوشی سے جھوم اٹھی، پائوں زمین پر نہیں ٹک رہےاور میں خود کو ساتویں آسمان پر محسوس کررہاہوں۔ سو فیصد روحانی دورے پر تشریف لانے والے میرے محترم امام نے فرمایا: ’’ہر سعودی پاکستانی اورر ہر پاکستانی سعودی ہے‘‘ میرا خیال تھا کہ تیل کی دولت میں لت پت ہونے سے پہلے ایسا تھا لیکن اگر اب بھی ایسا ہی ہے تو چشم ما روشن دل ماشاد کہ دولت مند کا اپنے کنگلے رشتہ دار کو اون کرلینا ہی بڑی بات ہے جبکہ آپ نے تو ہمیں ’’سعودیز‘‘ ڈکلیئر کرکے سرآنکھوں پرجگہ دی جس کے جواب میں شکریہ، آداب، تسلیمات، بندگی کے سواکیا پیش کروں کہ میرے پلے تو کھربوں روپے کے قرضوں کے علاوہ اور ہے ہی کچھ نہیں اور ہم وہ ’’سعودی‘‘ ہیں جن میں سے آدھے خط غربت پرحشرات الارض کی طرح رینگ رہے ہیں۔ ہم وہ ’’سعودی‘‘ہیں جن کے بچوں کوتعلیم، مریضوں کوعلاج، بھوکوں کو روزگار، مظلوموں کو انصاف اور تحفظ میسر نہیں اور کیونکہ غریبوں کی سوچ بھی غریبانہ سی ہوتی ہے اس لئے چند غریبانہ سی معروضات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ فدوی کیونکہ نیم خواندہ سا آد می ہے جس کے عالم ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے جہالت کے سبب کوئی سوال، کوئی بات ناگوارگزرے، تو ’’سعودی‘‘ سمجھ کر نظرانداز فرمائیں۔آج تک تو جو پڑھا سنا اس کے مطابق تو ’’آل سعود‘‘ نجدی عربوں کا ایک قبیلہ ہے جبکہ ہم تو جٹ، گجر،ارائیں، بھٹی، رانے، راجپوت، لوہار، ترکھان، تیلی، کشمیری، مگسی، بگتی، سومرو، بھٹو، تالپور، آفریدی، شنواری، یوسف زئی، رند، نیازی، سدوزئی، کاکڑ، جنجوعہ، جھاکرانی وغیرہ وغیرہ وغیرہ 1000000 x ہوتے ہیں۔ اپنی ذاتیں گوتیں لکھنے بیٹھوں تو منوں کے حساب سے کاغذ اور آپ کو صدیوں کے حساب سے وقت درکار ہوگا اس لئے رہنے دیتے ہیں اور مزید کسی تفصیل میں جائے بغیر سرخوشی کے عالم میں خود کو ’’سعودی‘‘ سمجھ لیتے ہیں تو….کیا سعودیوں کو بھی حج و عمرہ کے لئے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے؟اور کیا سعودیوں کو بھی سعودی عرب کی نیشنیلٹی بالکل ایسے ہی نہیں ملتی جیسے کوئی پاکستانی خواہ 50 سال سے وہاں رہائش پذیر ہو، شہریت کا سوچ بھی نہیں سکتا؟ میں نے اڑتی اڑتی سنی ہے کہ یورپ، امریکہ، کینیڈا وغیرہ جیسے کفار اور غیربرادر ممالک کی شہریت تو مل سکتی ہے، سعودی عرب کی نہیں اور ہاں میں نے یہ پروپیگنڈہ بھی سنا ہے کہ مہذب دنیا میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے، ہوتے ہی وہاں کا شہری ہو جاتا ہے تو اس حوالے سے ہم جیسے ’’سعودیوں‘‘کی سعودی عرب میں کیا پوزیشن یا سٹیٹس ہے؟ اور یہ بھی سنا ہے کہ ہم جیسے ’’سعودی‘‘…. سعودی عرب میں جائیداد بھی نہیں خرید سکتے تو اس میں کہاں تک سچائی ہے؟ کہ اگر پوری مہذب دنیا میں آپ ایسا کرسکتے ہیں تو ہم ’’پاکستانی سعودی‘‘ اپنے سعودی عرب میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ میرا خیال ہے کہ اہل مغرب نے یقیناً کسی سازش کے تحت یہ افواہ پھیلا رکھی ہے بلکہ وہ خبیث تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’سعودی پاکستانی‘‘ وہاں ’’کفیل‘‘ کے بغیر اپنا ذاتی کاروبار بھی نہیں کرسکتا بلکہ اپنا بنک اکائونٹ کھولنے سے لے کر دخول و خروج تک کے لئے بھی کفیل کا دست نگر اور محتاج ہوتاہے اور یہ کفیل عموماً اپنے ’’پاکستانی سعودی‘‘ بھائی کا پاسپورٹ بھی گروی رکھ لیتا ہے تاکہ بھائی چارے کی سند رہےاور بوقت ضرورت کام آئے تو بتایئے اس میں کتنی حقیقت ہے کیونکہ مہذب دنیا میں تو ’’کفیل‘‘ نام کی کسی جنس کا میں نے کبھی نہیں سنا۔ایک اور اہم او ر نازک سی بات تو میں بھول ہی گیا کہ اگر کوئی عوام قسم کا ’’پاکستانی سعودی‘‘ اپنی حکومت کےزیرعتاب آ جائے تو کیا اسے بھی نوازشریف اینڈ کمپنی کی طرح ’’سیاسی پناہ‘‘ مل جاتی ہے یا اس معاملہ میں بھی اسے مہذب دنیا سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے جو پناہ کے ساتھ ساتھ وظیفہ بھی دے دیتی ہے۔سوال تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن کچھ اگلی نشست کے لئے بچا، اٹھا رکھتے ہیں کیونکہ آخر پر میں چند عربی محاورے پیش کرکے ، اگر کہیں غلطی ہو تو آپ سے تصحیح چاہتا ہوں۔اَلعَاقِل تکفِیہ الاِشَارَۃُعقل مند کو اشارہ کافی ہےِّاَلصَبر مفِتاحُ الفَرَجِصبر کشائش کی کنجی ہے الَاقَارِبْ کالَعقَارِبِقریبی بچھوئوںکی مانند ہیںاَلَمرٔ یعُرف بِالمَامِلاتِ لا بالصّومِ و الصلوٰۃِانسان معاملات سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ روزہ نماز سےاَلعِلمُ حِجَابُ الاکْبَرُعلم بہت بڑا پردہ ہےاَلحقیقۃُ مُوثِرۃٌ مِن الحَکایَاتحقیقت افسانوں سے زیادہ موثر ہوتی ہےاَلصمتُ زینۃُ العالِم و سِترُالجَاہِلِخاموشی عالم کی زینت اور جاہل کا پردہ ہوتی ہے ۔