آل سعود كا منطقی انجام
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
سعودی عرب اور امت اسلامیہ كے مستقبل كے امور كی باگ ڈور 30 سالہ مغرور اور بد اخلاق شہزاده "محمد بن سلمان بن عبدالعزيز” كے سپرد ہوگئی ہے۔ والد كے فرمانروا بننے سے پہلے اسے كوئی بڑا منصب نہیں ملا اور ناتجربہ كار شخص سعودی عرب جيسے ملک كہ جس كا اثر و نفوذ پورے جہان اسلام میں ہے، اسے اسكا ہيرو اور سب سے زياده باختيار شخص بنا ديا گیا ہے۔ 23 اپريل 2015ء يعنی نائب ولی عهد بننے كے ٹھیک 6 دن پہلے اس مغرور اور بداخلاق نو عمر سعودی وزير دفاع نے وزيراعظم پاكستان جناب مياں نواز شريف صاحب كی سربراہی ميں اعلٰى سطحی پاكستانی وفد کی سعودیہ كے سركاری دورے كے موقع پر ہمیں ايک ہی دن ميں تين مختلف چہرے دكهائے۔
• پہلے ائر پورٹ پر ہمارے اعلٰى سطحی وفد كا ولی عہد كی ہمراہی ميں استقبال كيا۔
• پھر اسی دن تهوری دير بعد ايک بيان داغ ديا اور اسے بين الاقوامی ميڈيا ميں نشر كيا كہ جس ميں پاكستان اور مصر كی حكومت، آرمی اور عوام كی خوب تضحیک و اہانت كی اور انہیں بهكاری، ذليل، بے بس اور بزدل كہنے پر ہی اكتفاء نہیں كيا بلكہ کتوں سے تشبيہ دے ڈالی۔
•اور پھر رات كو دوباره جناب مياں صاحب سے ملنے يمن كے مفرور صدر منصور هادی كے ساتھ ان کی رہائشگاه پر چلا گیا۔
آل سعود كا تقريباً ايک صدی پر محيط نظام اب اپنے منطقی انجام كی طرف جا رہا ہے۔ كسی كو اسے گرانے كی ضرورت نہیں۔ يہ ظلم و بربريت كا باب خود بخود نااہل حكمرانوں اور اپنے داخلی اختلافات كی نذر ہو كر ہمیشہ كے لئے بند ہونے والا ہے۔ ليبيا، مصر، تيونس، بحرين، شام، عراق اور يمن كے داخلی امور ميں فقط مداخلت ہی نہیں بلكہ ان ممالک ميں تباہی، بربادی اور بمبارمنٹ كے نتيجے ميں لاكهوں بے گناہ انسانوں كے قتل كے بعد انكے مقدر كا ستاره ڈوبنے والا ہے۔ حضرت امير المؤمنين علی ابن ابی طالب عليهم السلام كا فرمان ہے، "حكومت كفر سے تو باقی ره سكتی ہے ليكن ظلم سے باقی نہیں ره سكتی۔” ہماری حكومت، ہمارے سياستدانوں، ہمارے اداروں اور ہماری عوام كو جذبات اور تعصب كی عينک سے نہیں بلكہ ہوشمندی اور عقل كی نگاه سے ديكهنا ہوگا اور اپنے مستقبل كا فيصلہ كرنا ہوگا۔ ہماری پارلیمنٹ نے انتہائی عاقلانہ فيصلہ كيا اور ملک كو ايک بہت بڑے بحران سے بچا ليا اور دنيا كی نگاه ميں پاكستان اور پاكستانی قوم كا سر فخر سے بلند ہوا اور ثابت كيا كہ ہم نہ تو كسی كے غلام ہیں اور نہ ہی ہمیں خريدا جاسكتا ہے۔
درست ہے كہ مشكل وقت ميں سعودی عرب نے ہماری مالی مدد كی اور ہمارے تقريباً 2 ملين افراد سعودی عرب ميں كام كرتے ہیں، ليكن جب يہ سوال اٹھایا جائے كہ ہمیں سعودی شراكت سے نقصان كتنا ہوا؟
• تو ہماری زبانوں پر تالے كيوں لگ جاتے ہیں؟
• ہمارا آزاد ميڈيا خاموش کیوں ہو جاتا ہے؟
• اس بات کو مذہبی تعصب كی نگاه سے كيوں ديكها جاتا ہے؟
كيا يہ سچ نہیں كہ پورے پاكستان ميں اس شراكت سے پہلے اور اكثر علاقوں ميں ابھی تک بھی ايک ہی فيملی کے لوگ شيعہ بھی ہیں اور سنی بهی، ديوبندی بهی ہیں اور اہل حديث بهی۔ آپس ميں رشتہ دارياں بھی ہیں اور خوشی و غمی ميں شريک بهی ہوتی ہیں؟
اس شراكت كے بعد فتنہ تكفيریت نے جنم ليا، پهر قتل كے فتوے صادر ہوئے، پھر ٹارگٹ کلنگ، دهماکے اور اس كے بعد لاشوں کے ٹکڑے اور گلے کٹنے شروع ہوئے، حتی کہ نوبت ان کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال كهيلنے تک جا پہنچی۔
عام پاکستانی کے چند سوالات ہیں ان لوگوں سے جنکو سعودی فوبیا ہے۔
(1)۔ تكفيری سوچ اور دہشتگرد گروہ كہ جن كی وجہ سے ہمارا ملک بحرانوں كا شكار ہے، کیا یہ سوچ ہمیں اسی شراكت سے نہیں ملی؟؟
(2)۔ ہماری انڈسٹری جو ملک ميں ناامنی اور دہشت گردی كی وجہ سے پاكستان سے باہر منتقل ہوئی اور لاكهوں افراد بے روزگار ہوئے، کیا یہ تحفہ اسی شراکت کا دیا ہوا نہیں ہے؟؟
(3)۔ كيا اسكولوں كی تعمير پر كروڑوں کا بجٹ نہیں لگتا، كيا ہمارے تجارتی و دينی مراكز يا مساجد، امام بارگاہیں اور لوگوں کی شخصی پراپرٹی دہشت گرد ایک ہی دهماكے سے اڑا ديتے ہیں، کیا یہ اسی شراکت کا اثر نہیں ہے؟؟
(4)۔ مختلف مكاتب فكر سے تعلق ركهنے والے ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفيسرز، علماء، وكلاء، ججز وغيره ہر طبقے کے لوگ جو دہشت گردی كا شكار ہوئے، کیا وہ ہمارا قومی سرمایہ نہیں تھے؟
(5)۔ دہشت گردی كا شكار ہونے کے بعد ہمارے دفاعی اخراجات اور سكیورٹی كی ضروريات ميں اضافے كے باعث ہمارے بجٹ ميں كروڑوں اور اربوں روپے كا اضافہ ہوا، كيا یہ اسی شراكت كی وجہ سے نہیں؟؟
(6)۔ ہماری سرحدوں سے خطرات آگے بڑھ كر ہمارے گلی كوچوں اور گھروں تک آگئے، ہمارے دفاعی اور امن و امان كے محافظ ادارے خود ناامنی كا شكار ہوئے، كيا یہ تحائف اسی شراکت كی وجہ سے نہیں؟؟
دس لاکھ پاکستانی ہمارے بهائی محنت مزدوی كركے، خون پسینہ اور اہانت برداشت كركے لقمہ حلال كماتے ہیں تو يہ كون سا احسان ہے، ہم سے تو زياده 3 ملين بھارتی لوگ بهی تو وہاں مزدوری كرتے ہیں، حتی کہ انكے ساتھ تو معاملہ اور برتاو بهی اچھا كيا جاتا ہے اور كبهی اس احسان كو جتلايا بهی نہیں جاتا۔ جب بهی سعوديہ كو خطره ہوا ہم نے انہیں بچایا، كبهی انكے كہنے پر عراق كی سرحد پر اور كبھی بحرين مين اپنی جوانوں كو بھیجا، جن حرمين شريفين كے تقدس کے وه خود قائل نہیں اور انكے دفاع کی صلاحيت نہیں ركه
تے، انہیں وہاں پر حكومت كا كوئی حق نہیں۔ حرمين شريفين سے كمائی خود كرتے ہیں اور پوری امت مسلمہ كے اس سرمایہ سے کعبہ کی حفاطت كيوں نہیں كرسكتے۔؟ آخری دنوں ميں ہمارے خلاف جو طوفان بدتميزی اور جس حقارت سے ہمیں مخاطب كيا گیا ہے، كوئی غيرتمند قوم اسے برداشت نہیں كرتی۔ اب ہمارے حكمرانوں كو بخشو كا كردار نہیں بلكہ جهان اسلام كی پہلی اسلامی جمہوریت اور ایٹمی طاقت كا كردار ادا كرنا ہوگا۔ اگر ذليل ہی ہونا تها تو جدا ملک بنانے اور قربانياں دينے کی كيا ضرورت تهی۔؟؟
يہ وقت پاكستان كی خاطر ہر قسم كے داخلى اختلافات كو ترک كرنے کا ہے۔ دنيا ميں بڑی تيزی سے تبديلياں آرہی ہیں اور یہ وقت درست فيصلے كرنيكا وقت ہے۔ ہم سب پاكستانی ايک متحد قوم بن كر اس نازک مرحلے كو عبور كرسكتے ہیں اور وطن كو مستحكم كرسكتے ہیں۔ ہماری قوم كو اس وقت مذہبی، سياسی اور بيوروكريسی كے اندر مافيا كی نہیں بلكہ محب وطن، خدمت گزار اور قربانی كا جذبہ ركهنے والے مذہبی، سياسی قيادت، مخلص اور فرض شناس بيوروكريسی كی ضرورت ہے، اور غير پرستی چھوڑ كر اپنے لئے اور آنے والی نسلوں كے لئے ملک كو بحرانوں سے نكالنے كی ضرورت ہے۔ ہماری مسلح افواج نے ہر مشكل وقت میں اور مختلف جنگوں ميں اپنی پیشہ وارانہ صلاحيتوں اور جرأت و بہادری كا مظاہره كيا اور دشمنوں كے دانت كٹھے کئے، اور آج بهی مادر وطن ميں قيام امن اور دہشتگردی کے خاتمے كے لئے برسر بيكار ہیں، پس ہمیں لالچ اور دهمكيوں سے ڈر كر اس ملک و فوج کے وقار كو مجروح كرنے كی اجازت نہیں دينی چاہیے۔