کراچی پھر نشانے پر۔۔۔!
تحریر: تصور حسین شہزاد
کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں جن افراد کو زیادہ تر نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں خاص طور پر پولیس اور سکیورٹی اداروں کے لوگ شامل ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے سابق ایس پی ملیر راؤ انور کے قریبی ساتھی پولیس افسروں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور گذشتہ روز ایک اور پولیس افسر ڈی ایس پی ذوالفقار زیدی کو شاہ فیصل کالونی میں فائرنگ کرکے محافظ سمیت شہید کر دیا گیا۔ شہید پولیس افسر سندھ ہائی کورٹ کے سکیورٹی انچارج کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اہم ذمہ داریوں پر تعینات پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ نہ جانے کیوں یہ احساس دلاتی ہے کہ جس طرح 1992ء میں حیدرآباد آپریشن کرنے والے پولیس، فوج اور رینجرز کے افسران کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا تھا ویسا ہی منظر نامہ پھر سے دوہرایا جا رہا ہے۔ نائن زیرو پر رینجرز کی کارروائی کے بعد ملنے والی دھمکیوں کا شاخسانہ قرار دی جانے والی تازہ ترین ٹارگٹ کلنگ سکیورٹی اداروں کے لئے بہت بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے تازہ ترین وارداتوں کے بعد کراچی آپریشن کے اصل ذمہ دار وزیراعلٰی سندھ سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور وزیراعلٰی سندھ نے آئی جی سندھ سے، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما ابھی تک گورنر کے عہدے پر فائز ہیں اور شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ یہ سنگین وارداتیں حکومتی ہیئت مقتدرہ پر ایک زبردست حملہ ہے اور شہر پر برسوں سے قابض سیاسی جماعت کا مقتدر قوت نافذہ کو دعوت مبارزت دینا بہت سارے سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کے سربراہ مملکت ممنون حسین، جن کا تعلق بھی کراچی سے ہے، اپنے شہر کی صورتحال پر تبصرہ کرنے کی بجائے یہ حکومتی عزم دہراتے نظر آتے ہیں کہ کراچی کا امن تباہ کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوگی۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی زبان، ہماری تہذیب و ثقافت غیر ملکی یلغار سے نبرد آزما ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت بھی کرنا ہے اور وطن عزیز کو دہشت گردی کے عفریت سے بھی بچانا ہے۔ آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا اور کراچی آپریشن بھی، اور حالات ایسے پیدا کر دیئے جائیں گے کہ امن بھی قائم رہے اور آئندہ کسی کو کراچی کا پرامن ماحول تباہ کرنے کی جرات نہ ہو۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زمینی حقائق حکومتی دعووں کی نفی کر رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دو راہے پر کھڑا ہے۔ ہماری افواج اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پوری دل جمعی اور مستعدی کے ساتھ مصروف کار ہیں۔ پاکستان دشمن عناصر ہماری افواج کی دہشت گردی کے خاتمے کی مہم سے توجہ ہٹانے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں۔ گذشتہ دنوں کور کمانڈر کانفرنس میں برملا طور پر ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان میں جاری مذموم سرگرمیوں کا سخت نوٹس بھی لیا گیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے تمام سکیورٹی ایجنسیوں کو ہدایات جاری کیں کہ دشمن کے ایجنٹوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کارروائی سے ہرگز گریز نہ کیا جائے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی "را” سے مدد مانگنے کی اپیل کے تناظر میں کراچی کے موجودہ حالات کا تجزیہ کیا جائے اور سکیورٹی فورسز کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں پاکستان میں دشمن ملک ایجنسی کا سہولت کار کہا جاسکتا ہے۔ شائد اسی تناظر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نشاندہی کی ہے کہ الطاف حسین جس طرح کی سیاست کرنے جا رہے ہیں وہ خود ایم کیو ایم اور پاکستان کے لئے نہایت مضر ثابت ہوگی۔ راقم کی دانست میں ایم کیو ایم کے پاس قومی دھارے کی سیاست کرنے کا بہترین وقت تھا کہ اس نے کراچی کے حلقہ این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں بڑی واضع برتری حاصل کرکے خود کو سیاسی قوت کے طور پر منوا لیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر سیاسی طاقت کو انتشار پھیلانے کی بجائے مثبت انداز میں استعمال کرکے کراچی کے شہریوں کو پرامن ماحول فراہم کرنے کی ضمانت بنا لیا جاتا، مگر افسوس کہ نائن زیرو پر ہونے والی سکیورٹی ایجنسی کی کارروائی کو انا کا مسئلہ بنانے والوں نے ایک بار پھر ریاست کے خلاف دشمن کے ایما پر ہتھیار اٹھا لئے ہیں۔ کراچی رینجرز کے سربراہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پولیس فورس کراچی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں، اہم ترین اور پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے مجرموں کو بہت جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آخر کب تک ہم صرف مقتدر لوگوں کی طرف سے مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے اعلانات پر ہی اکتفا کریں گے اور کب تک کراچی کے شہری اپنے محافظوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی آپریشن جن سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر شروع کیا گیا تھا، اب اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ عدالت عظمٰی نے کراچی کے حالات پر ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کے دوران عدالتی فیصلے میں جن سیاسی جماعتوں کی نشاندہی کی تھی کہ وہ عسکری ونگ رکھتی ہیں، وہ کراچی کے حا
لات کو خراب کرنے میں برابر کی شریک ہیں۔ ان سب کے خلاف کارروائی جائے، تاکہ کسی ایک سیاسی گروپ کو عوام کے اندر یہ تاثر پھیلا کر ریاستی جبرکا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا موقع نہ دیا جائے بلکہ رینجرز کی طرف سے کہا گیا یہ جملہ مشعل راہ بنایا جائے کہ "کراچی آپریشن کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ کراچی میں اب صرف دو گروہ ہیں، ایک مجرموں اور دوسرا جرائم پیشہ افراد کے مخالفین کا۔ کراچی کے عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہلے سے زیادہ مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کا اعتراف سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آ رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کو امن دینے کے لئے جس عزم کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ لائق تحسین ہیں۔ پولیس،ریجرز اور دیگر سرکاری ایجنسیاں بڑے مشکل حالات میں منی پاکستان کو بچانے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھے مجرموں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ پوری قوم کو اس بات کا احساس کرتے ہوئے اپنی سیاسی قیادت پر زور ڈالنا چاہئے کہ وہ سیاست، مصلحت پوشی ترک کرکے اخلاص کے ساتھ کراچی کو دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے مشن کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔