مفتی نعیم کے تکفیری فتوے پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی وجہ ہیں، علامہ عباس کمیلی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بنیادی ترین سبب چند نام نہاد مفتیوں کی جانب سے تکفیر کے فتوں کا سامنے آنا ہے یعنی پاکستان کے چند ایسے مدارس ہیں کہ جو اس وقت فتویٰ ساز فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں اور بالخصوص ایک مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مفتی نعیم کی جانب سے بھی ایسے فتوے دیکھنے میں آئے ہیں کہ جن میں کبھی شیعہ مسلمانوں کو، کبھی اسماعیلی مسلمانوں اور کبھی افواج پاکستان کے خلاف تو کبھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے خلاف اور اسی طرح بوہرہ برادری کے خلاف بھی فتوے دئیے گئے ہیں جس میں درج بالا تمام مسالک کی تکفیر کی گئی ہے اور یہی فتوے بنیادی سبب بنے ہیں کہ پاکستان میں ان مسالک اور برادریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا تا رہاہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنا ہے تو سب سے پہلے پاکستان کی فتویٰ ساز فیکٹریوں (مدارس) کے خلاف سخت کاروائی کرنا ہوگی۔ وہ ہفتہ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ ہم عوام پاکستان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک طرف فتویٰ ساز فیکٹریاں اپنا کام کر رہی ہیں تو دوسری جانب انہی فتویٰ ساز فیکٹریوں سے نکلے ہوئے لوگوں کو اب تعلیمی اداروں میں بھی لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے کہ جس کا نتیجہ تعلیمی اداروں میں مذہبی منافرت کا پھیلاؤ اور فرقہ واریت کا پرچار ہے جس کی تازہ ترین مثال سعد عزیز اور طاہر محمود جیسے لوگ ہیں جو نہ صرف ملک دشمن کاروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جبکہ سانحہ صفورا سمیت متعدد دہشت گردانہ کاروائیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی اداروں کی مکمل نااہلی ہے کہ فتویٰ ساز فیکٹریوں سے فارغ التحصیل اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد با آسانی اب تعلیمی اداروں میں بھی پہنچ کر مذہبی منافرت پھیلانے کے منصوبے پر کاربند عمل ہے، جس کا نتیجہ ہم ماضی میں جامہ کراچی سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے مایہ ناز پروفیسر حضرات کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ آج جامعہ کراچی بھی تعصب کی آماجگاہ بن چکی ہے کہ جہاں مخصوص متعصب سوچ کے حامل افراد موجود ہیں جو مسلکی بنیادوں پر کاموں کو ترجیح دے رہے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ جامعہ کراچی میں تمام مسالک کی مساجد موجود ہیں لیکن ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے شیعہ مسلمانوں کے لئے مسجد نہیں ہے اور اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ تعصب کی عینک سے اس معاملے کو دیکھتی ہے جو قابل مذمت ہے
ان کا کہنا تھا کہ آج یمن میں سعودی جارحیت کے نتیجے میں صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں چار ہزار سے زائد معصوم انسان موت کی نیند سلا دئیے گئے ہیں اور یہ سب لوگ کلمہ گو تھے، آخر ان کا جرم کیا تھا کہ انہیں سعودی جارحیت کے نتیجے میں موت کی نیند سلا دیا گیا، آج پوری دنیا میں امن و عامہ کے مسائل پید اہو چکے ہیں اور بالخصوص مسلم ممالک کی صورتحال غیر مستحکم اور بد امنی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری اور مسلم حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب پر دباؤ ڈالیں کہ وہ دنیا میں امن و امان کے قیام کے لئے سب سے پہلے یمن پر جاری جارحیت کو بند کرے اور دنیا میں سعودی بطن سے جنم لینے والی دہشت گرد تنظیموں بشمول القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر کی مالی و مسلح معاونت کا سلسلہ بھی بند کیا جائے تا کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام مسلم ممالک میں دہشت گردی کے مسائل سے نمٹنے میں آسانی ہو سکے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت میں بھی مسلم ممالک میں اتنے افراد قتل نہ ہوئے ہوں گے جتنے سعودی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے قتل کئے گئے ہیں صرف پاکستا ن کی ہی بات کریں تو یہاں 70 ہزار پاکستانیوں کو انہی سعودی لے پالک دہشت گرد گروہوں نے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا ہے۔
جعفریہ الائنس کے سربراہ نے کہا کہ ایک طرف سعودی حکمرانوں نے یمن میں خون کی ہولی کا بازار گرم کر رکھا ہے تو دوسری جانب حرمین شریفین کا واویلا بھی لگا رکھا ہے کہ حرمین کو خطرہ ہے، یہ کس قسم کا خطرہ ہے؟ ایک طرف مظلوم لوگوں کا قتل عام کیا جا رہاہے اور واویلا کیا جاتا ہے کہ حرمین کو خطرہ ہے، جی نہیں حرمین شریفین کو خطرہ نہیں بلکہ سعودی بادشاہتوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں، دہشت گرد ان کے اندر موجود ہیں اور ان کو اپنی حکومت کی تنزلی کا خطرہ ہے، تاہم انہوں نے حرمین کا واویلا بنا کر پاکستان کو بھی اس خطرناک جنگ میں جھونکنے کی کوشش کی لیکن پارلیمنٹ نے ایک تاریخی فیصلہ کر کے سعودی عرب کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض صاحب کی تعصبانہ حرکات کو بھی حکومت کی نوٹس میں لانا چاہتے ہیں۔ ملک ریاض ایک مخصوص مسلک کے ساتھ مل کر بھرپور مالی معاونت کر رہے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے فراہم کی جانے والی مالی معاونت دہشت گردی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکتی ہے تاہم ملک ریاض کو چاہئیے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بزنس مین ہی رکھیں نہ کہ کسی خاص مسلک کے معاون کار بن جائیں جو ملک و قوم کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔