سندھ میں درجنوں دیوبندی مدرسے دہشت گردی میں ملوث ہیں – انٹلیجنس رپورٹ
سندھ میں آئی ایس آئی اور آئی بی کی سندھ حکومت کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 46 مدارس ایسے ہیں جن کے دہشت گرد گروپوں سے تعلق ہیں ، لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی تاحال نہیں کی گئی . کیوں ؟
روزنامہ ڈان نے 22 جون 2015 بروز سوموار کو اپنے نمائندے امتیاز علی سے رپورٹ کیا کہ امن و امان کے حوالے سے ایک جائزہ اجلاس چیف منسٹر سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں بتایا گیا کہ 46 مدارس ایسے ہیں جن کے دہشت گرد گروپوں سے تعلق ہے اور یہ دعوی ایک ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی ( آئی ایس آئی ) اور سویلین وفاقی انٹیلی جنس ایجنسی ( آئی بی ) کی رپورٹ پر کیا گیا
ان 46 میں سے 24 مدرسے کراچی میں ، 12 حیدر آباد میں ، 4 لاڑکانہ میں اور جبکہ تقریبا 6 سکھر میں ہیں جبکہ کراچی کے اندر منگھو پیر اور اور سہراب گوٹھ میں دو مدرسے ایسے ہیں جن کا تعلق جند اللہ اور ٹی ٹی پی سے ہے جبکہ دیگر مدارس کے ساتھ جن دہشت گرد گروپوں کا تعلق ہے وہ زیادہ تر دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان 46 مدارس میں ایک مدرسہ بھی سواد اعظم اہلسنت المعروف بریلوی سے تعلق نہیں رکھتا ، کیونکہ شرجیل میمن نے اس سے قبل اپیکس کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفینگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان مدارس کے خلاف کاروائی کے حوالے سے دیوبندی مکتبہ فکر کے مدراس کی تنظیم وفاق المدارس کو اعتماد میں لیا جائے گا ، لیکن روزنامہ ڈان کے اس رپورٹر نے اس مرتبہ اپنی رپورٹ میں اسے زکر نہیں کیا
ہم یہ سوال پوچھنے میں ایک مرتبہ پھر حق بجانب ہیں کہ جب ملٹری و سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب دے 46 مدارس کے دہشت گرد گروپوں سے روابط بارے سوراغ مل چکا ہے تو کراچی ، حیدر آباد ، لاڑکانہ ، سکھر کے 46 مدارس کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے پاکستان سنی تحریک اور سنی اتحاد کونسل کے دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور تاحال کوئی بھی ثبوت ان کے خلاف منظر عام پر نہیں لایا جاسکا
سندھ حکومت بھی اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ، دہشت گردی کے اڈے بہت واضح ہوکر سامنے آرہے ہیں ، منظم دہشت گردی سوائے دیوبندی تکفیری خوارج کے پاکستان میں اور کوئی نہیں کررہا لیکن ان کے حوالے سے سب سے زیادہ لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے ، فروری کے بعد سے ابتک کسی مذھبی دہشت گرد کو پھانسی نہیں سنائی گئی