"مولا علی ع " لکھنے سے گھبراہٹ کیوں ؟
تحقیق:السید حسنی
افسوس آج کل گفتگو ، تحریر اور تقریر میں سیدنا علی مرتضیٰ ع کو "مولا علی ع” کہا اور لکھا جائے تو بعض لوگ ماتھے پر شکن ڈال لیتے ہیں اور بعض احمق اور کودن لوگ تو اسے ضعیف الاعتقادی گردانتے ہیں ، حالانکہ یہ بجائے خود ان لوگوں کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کیونکہ مولا علی ع کو مولیٰ کہنا اور ماننا نہ صرف یہ کہ احادیث صحیحیہ پر عمل ہے بلکہ عین ایمان ہے اور اس کا انکار منافی ایمان ہے ۔
ماہ رمضان میں ایک ٹی وی کے پروگرام میں ، امیرالمومنین امام علی ع کو مولا علی ع ، مولاے کائنات کہا گیا اور حدیث غدیر پر عمل کرتے ہوئے سیدنا امام علی ع کو اس لقب سے پکارا گیا لیکن یہ بات ناصبیوں کو ہضم نہ ہوسکی کیونکہ ان کا مذہب ہی امام علی ع سے بغض رکھنا ہے ، انھوں نے اپنے ایک نام نھاد اخبار ” امت ” میں حدیث غدیر کی اسناد پر حملہ کیا اور مولا کہنے کو شرک کہا ، جبکہ حدیث غدیر محدثین کے نزدیک تواتر کا درجہ رکھتی ہے ، اس کی سند پر صرف ناصبی حملہ کرتے ہیں اور مولا علی ع کو مولا کہنا عین اس حدیث اور سنت صحابہ پر عمل کرنے کے مطابق ہے ۔
٭٭٭صحابی رسول جناب ابوایوب انصاری رض کا سیدنا علی مرتضیٰ ع کو مولا کہہ کر پکارنا ٭٭٭
حضرت ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی ع سے ملاقات کی اور کہا :اے ہمارے مولا ! آپ پر سلامتی ہو ۔ حضرت علی ع نے پوچھا میں کیسے آپ ع کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قوم عرب ہیں ( جو اتنا جلدی کسی کو قائد نہیں مانتے ) انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ع سے غدیر خم کے دن سنا تھا : جس کا میں مولا ہوں بے شک اس کا یہ علی بھی مولا ہے ۔ حضرت ریاح نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان کے پیچھے جا کر ان سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے ، ان میں حضرت ابوایوب انصاری رض بھی ہیں ۔
فضائل الصحابہ // احمد بن حنبل // ص 26
کتاب کے محقق جناب وصی اللہ بن محمد عباس نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی سلسلہ احادیث الصحیحیہ میں اس کی سند کو جید اور رجال کو ثقات کہا ہے ۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ // ج 4 // ص 240 // حدیث : 1750
۲۷ رمضان المبارک ۱۴۳۶ ھجری