مضامین

5 اگست یوم شہادت:: شہید قائد آغوش مادر سے صحن مکتب تک

٢٥ نومبر ١٩٤٦ء کے روز اذان صبح کے وقت لا الہ الا اللہ کا حقیقی عارف ماں کی گود میں وارد ہوا۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے سید فضل حسین شاہ صاحب کو ایک عظیم فرزند سے نوازا تھا۔ نومولود بچے کو والد بزرگوار کی گود میں لایا گیا۔ انہوں نے بسم اللہ پڑ ھ کر بچے کو اٹھا یا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ گویا بچے کو پہلا درس اللہ اکبر کا دیا گیا جو بعد میں اُن کے مزاج اور فطرت کا حصہ بن گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ عمر بھر اللہ اکبر کے درس پر قائم رہے اور سپر طاقت ہے خدا لا الہ الا اللہ کا درس دیتے رہے۔ عارف فرزند کے عارف باپ نے بیٹے کو ہتھلیوں پر اٹھایا تو ان کی نظر بچے کی کشادہ پیشانی پر جم گی انہوں نے پیشانی پر کئی مرتبہ ہاتھ پھیرا اور الحمد اللہ پڑھا۔ یہ بچہ باپ کی ہتھلیوںسے آغوش مادر میں منتقل ہوا تو ماں نے خاک کربلا کی ایک چٹکی بچے کو گھٹی میں دی۔ گویا اس بچے کے خون میںسب سے پہلے تحلیل ہونے والی خوارک خاک کربلا تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ نے زندگی میں بار بار فرمایا ”شہادت ہماری میراث ہے جوہماری ماؤںنے ہمیں اپنے دودھ میں پلائی ہے”۔

چند روز بعد بچے کے نام کامسئلہ پیش آیا تو بزرگان نے اپنے عرفان اور بچے کی پیشانی کی بدولت اس کانام عارف حسین رکھا۔ جو بعد میں عارف حسین الحینی کے نام سے معروف ہوا۔ یہ بچہ وقت کے ساتھ پہلو ئے مادر میں پلتا رہا۔بقول آپ کی والدہ معظمہ کے کہ ”اس بچے کی نظریں جس مقام پر بھی ٹک جاتےں ، کئی کئی لمحے ٹکی رہتیں اور کبھی کبھار انہیں دیکھ کر میرا دل بھی بھرجاتا تھا”۔

سید عارف حسین الحینی چار پانچ برس کے ہوئے تو والدین نے بچے کی تعلیم کی فکر ہوئی اور انہیں پیواڑ کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا اور ساتھ ہی گھر میں قرآن مجید کے ابتدائی درس کا اہتمام بھی کیا گیا۔ آپ چوتھی جماعت تک پیواڑ کے پرائمری سکول میںزیر تعلیم رہے اور بعد ازاں مزید تعلیم حاصل کرنے پاراچنار کے ہائی سکول میں داخلہ لیا اور میڑک یہیں سے پاس کیا اوراِس دوران آپ نے اپنی بڑی ہمشیرہ کے ہاں موضع ”ملانہ” میں قیام کیا۔

آپ نے قرآن مجید کی تعلیم بھی اِسی گاؤں میں مکمل کی ۔ آپ بچپن ہی سے اپنے ماموں سید غلام عباس شاہ مرحوم المعروف سید جانیاں شاہ سے بے حد مانوس تھے اور سید جانیاں شاہ بھی اکثر سید عارف حسین الحسینی کو پہلو میں لے کر سوتے تھے ۔ ایک دفعہ بہن نے اپنے بھائی عارف حسین سے شکوہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھتے بلکہ بزرگوں کے ساتھ سارا وقت گزارتے ہیں تو آپ نے فرمایا”بزرگوں کے قصے اور کارنامے سن کر مزہ آتا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی اپنے بزرگوں کی طرح کام کروں”۔

سید عارف حسین الحسینی بچپن ہی سے نماز کے پابند تھے۔ وہ اپنے ماموں کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں سوتے ۔انہیں اپنے آباو اجداد کے قصے سنانے پر مجبور کرتے رہتے اور اپنے ماموں کے ساتھ رات کو نماز بھی ادا کرتے۔ آپ پر ماموں کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ بچپن ہی میں شادیوں وغیرہ میں ڈھول ، روایتی ناچ اور گانوں کی محفلوں سے سخت نفرت کرنے لگے۔ آپ سکول کے بعداپنے چچا زاد بھائیوں سے کھیل کود میں کچھ وقت گزارتے اس کے بعد گھر کی بکریاں پہاڑوںکی چوٹیوں پر لے جاتے۔ مگر خود کتاب لے کر بکریوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سبق بھی یاد کرتے رہتے۔ ہمیشہ مغرب کی اذان سے قبل واپس آتے، وضو کرتے، ماموں کے ساتھ نماز پڑھتے، کھانا کھاتے اور پھر سبق پڑھنے میں مصروف ہوجاتے۔

اوائل عمر ہی سے آپ ہشاش بشاش اور ہنس مکھ تھے۔سید عارف حسین الحسینی اپنے گھرانے میں ایسے دلفریب مزاح کرتے تھے کہ تمام گھر والوں کو بے اختیار ہنسی آجاتی تھی بعض اوقات تمام گھر والے کسی بات پر ہنس رہے ہوتے تو باہر سے آنے والا فرد بے اختیار کہہ دیتا کہ ــ”لگتا ہے عارف حسین نے پھر کوئی مزاح کیا ہے ”۔

بچپن میں ”آملوک”آپ کا مرغوب پھل تھا۔ ایک دفعہ آملوک کے درخت سے گرے تو آپ کا دایاں بازو ٹوٹ گیا۔ بازو ٹھیک ہوا تو پھر اسی درخت پر چڑھ گئے۔ چھوٹے چچا ز اد بھائی نے کہا کہ پہلے تو آپ اسی سے گر کر زخمی ہوئے تھے اب پھر چڑھ رہے ہیں تو آپ نے جواب دیا”آج میں اِس پر اس لئے نہیں چڑھا کہ آملوک کھاؤں۔ آج اس لئے چڑھ رہا ہوں کہ یہ درخت یہ نہ سمجھے کہ عارف حسین ڈر گیا ہے ”۔

چونکہ ملانہ گاؤں { XE "گاؤں ” }پاراچنار سے دو تین کلومیٹر دور ہے اس لئے روزانہ کی تکلیف اور سردیوںکی بدولت آپ پاراچنار سکول کے ہاسٹل میں رہنے لگے اور کمرہ نمبر ٥ آپ کو الاٹ ہوا۔ آپ بچپن ہی سے بے حد ملنسار، مؤدب، پابندِصوم و صلاۃ، کم گو اور مطالعہ کے شوقین تھے۔ ان صفات کی بناء پر ہاسٹل کے تمام طلباء آپ کی بے حد عزت کرتے تھے۔

زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کے تقویٰ، سچائی اورمؤدب پن نے اساتذہ کو بے حد متاثر کیا۔ا سکول یا جماعت میں طالب علموں کے درمیان اگر کوئی جھگڑا ہو جاتا تو اساتذہ آپ کی گواہی کے بعد آخری فیصلہ دے دیتے۔اساتذہ کے سامنے سر جھکاکر بیٹھنااور نظریں نیچی کر کے چلنا آپ کا شیوہ تھا۔ یہاں تک کہ آپ پورے زمانہ طالب علمی میں نہ کسی سے اُلجھے اور نہ کسی سے ناراض ہوئے۔

آپ نے ا سکول میں جن اساتذہ سے فیض حاصل کیا ان میں نجات حسین علی زئی، ناصر حسین زڑان، علی زمان زڑان، ابراہیم صاحب پاراچنار، دلدار حسین شلوزان سکول کے ہی
ڈ ماسٹر عثمان شاہ آف ٹل اور نائب ہیڈ ماسٹر عبداللہ جان آف زڑان سر فہرست ہیں جو آج بھی آپ کے زمانہ طالب علمی اور کردار کے معترف ہیں۔

١٩٦٢ء میں آپ کے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد آپ کے والدین کا خیال تھا کہ آپ کو کالج میں داخل کروایا جائے۔ لیکن آپ اپنی طبیعت میں روحانیت کی بنا ء پر دینی تعلیم کی طرف مائل رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پاراچنار میں کچھ عرصہ قبل حاجی غلام جعفر صاحب آف لقمان خیل نے ”مدرسہ جعفریہ” کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ مدرسہ آغازمیں تین کمروں پر مشتمل تھا جس میں چند طلباء نے داخلہ لیا تھا۔ چنانچہ آپ بھی دسویں جماعت کے بعد اسی مدرسہ جعفریہ میںداخل ہوئے اور عظیم منزل کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ دینی مدرسہ اور علماء کے ماحول نے سید عارف حسین الحسینی کی طبیعت پر گہرے اثر ات چھوڑے اور آپ کی فطرت میں مزید پختگی دن بدن آنے لگی ۔ اب آپ شباب کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ مگر شباب میں یہ عالم تھا کہ آپ مدرسہ میں باقاعدگی سے نماز تہجد اور تعقیبات ادا کرتے تھے۔

مدرسہ کے پرنسپل حاجی غلام جعفر جو ایک متقی اور برگزیدہ انسان تھے نے اپنے احباب سے اظہار کیا تھاکہ انہوںنے اکثر سید عارف حسین الحسینی کو رات کے پچھلے پہر یاد خدا میں مصروف پایا ہے۔ آپ کے تقویٰ سے مدرسہ کے تمام اساتذہ بے حد متاثر تھے۔ آپ کی ریاضت ، اخلاق اور حصول علم کے شوق کا ادراک کرتے ہوئے آپ کے دور اندیش اساتذہ نے

فرمایا تھا کہ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ کرّم ایجنسی میں سید عارف حسین الحسینی سے بڑا عالم دین کوئی نہیں ہوگا اور ایک روز یہ شخص کرم ایجنسی کی تقدیر بدل ڈالے گا۔

وقت گزرتا رہا، حالات بدلتے رہے، تقاضے بڑھتے رہے، سید عارف حسین الحسینی بھی اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے۔ آپ نے حالات کا خوب مشاہدہ کیا اور کرم ایجنسی کی تقدیر بدلنے کا عزم اپنے سینے میں امانت رکھ لیا۔

زمانہ طالب علمی میںآپ کو مناظرے کرنے کا بے حد شوق تھا۔اس لئے آپ دیگر کتب کے علاوہ مناظرانہ کتب کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔ اگر کوئی مناظر عالم دین پاراچنار آجاتا تو آپ اس کے ساتھ کافی دیر تک بیٹھے رہتے اور فن مناظرہ کے بار ے میں استفسار کرتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button