سالار شہداء پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار سے چند کلومیٹر دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق پارا چنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا، جس میں علم و عمل کی پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں۔ سید عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس جیسے جامعۃ المنتظر لاہور میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967ء میں نجف اشرف روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ امام خمینی سے متعارف ہوئے۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔
1974ء میں علامہ عارف حسین الحسینی پاکستان واپس آئے، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے، چنانچہ سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ سید عارف الحسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ ایران کی شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔ عارف حسین حسینی 1977ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسہ جعفریہ پارا چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
جب 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ آپ نے پاکستان کی ملّت تشیّع کو متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد 1984ء میں علامہ سید عارف الحسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلٰی انسانی صفات کی بنا پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا قائد منتخب کیا گیا۔ علامہ عارف الحسینی کا دور قیادت پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے جدوجہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں اہل تشیع کا مؤثر کردار نہیں تھا۔
علامہ عارف الحسینی نے اپنے ملک گیر دوروں، لانگ مارچ کے پروگراموں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس دلایا، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے۔ آپ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی و اجتماعی امور میں ہر مسلک و مکتب اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ علامہ عارف حسین الحسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے بھی موثر کردار ادا کیا۔ علامہ شہید عارف حسین الحسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے، آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے، اس سلسلے میں آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یکجہتی کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔
آپ نے ملت تشیع کو پاکستان میں عزت، وقار اور سرفرازی بخشی، دشمن آپ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگا چکا تھا، اور آپ کو اپنے مزموم عزائم کی تکمیل میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا، اسی لئے 5 اگست 1988ء کی صبح ان کو پشاور کے مدرسہ میں نشانہ بن کر ملت تشیع پاکستان کو یتیم کر دیا، شہید عارف الحسینی کی کمی آج نہ صرف پاکستان کی ملت تشیع بلکہ مظلومین بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں، شہید عارف الحسینی نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والی شخصیت بن چکے تھے، شہید عارف الحسینی کی کمی ملت تشیع پاکستان شائد ہمیشہ محسوس کرے، تاہم موجودہ حالات میں خود کو شہید عارف الحسینی کا جانشین کہنے والوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔