قائد اعظم، علامہ اقبال و مسلمانانِ ہند کا تصورِ پاکستان، چند معروضات
تحریر: امجد عباس مفتی
ریسرچ سکالر،اسلام آباد
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وطنِ عزیز اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی کہتے رہے کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں، انہیں الگ ریاست چاہیے۔ یہ ملک اس لئے درکار تھا کہ اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جاسکے، اسلامی سنہری اصولوں پر عمل کیا جاسکے۔ قائد نے فرمایا کہ پاکستان کا آئین چودہ سو سال پہلے سے مرتب شدہ ہے، ایک تقریر میں فرمایا کہ ریاست مذہبی حوالے سے مداخلت نہیں کرے گی، سبھی شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے، ریاست کی نظر میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے گا۔ یہ بات طے تھی کہ قائد اسے مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے، کیونکہ مذہبی ریاست خلافت کے تصور پر قائم ہوتی ہے، جبکہ قائد پہلے دن سے اسلامی جمہوری ریاست کی بات کرتے تھے، اچھا اگر مذہبی ریاست مقصود ہوتی تو قیام کے بعد دستور سازی علماء کرام کے حوالے کی جاتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگر پاکستان کا مطالبہ ایک مذہبی ریاست کے طور پر ہوتا تو علماءِ کرام اس تحریک میں پیش پیش ہوتے۔ کچھ تو تھا جس نے انہیں دور رکھا۔ علماء کرام کی بجائے مسلمانوں کا قائد پر اعتماد یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ ایسی اسلامی ریاست چاہتے ہیں جس میں ملا کا کوئی کردار نہ ہو۔
یہ بات بھی طے تھی کہ قائد مکمل سیکولر ریاست بھی نہیں چاہتے تھے، اگر سیکولر ریاست کی بات ہوتی تو وہ اپنی تقریروں میں ہمیشہ اسلام کا حوالہ دیتے تھے کہ اسلامی ریاست، جو اسلام کے سنہری اصولوں پر قائم ہوگی، نیز لاکھوں مسلمانوں نے اسلام کے نام پر اس تحریک کا ساتھ دیا۔ سیکولر حکومت کسی مذہبی نظریہ پر قائم نہیں ہوتی جبکہ پاکستان تو ایک نظریاتی مملکت تھا، شاید دو قومی نظریہ ہی سیکولر ریاست ہونے کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔
تو پھر قائد اور علامہ اقبال کا تصورِ پاکستان کیا تھا؟
قائدِ اعظم اور علامہ محمد اقبال ایسی جمہوری ریاست کے قائل تھے، جس کی بنیاد اسلام کی اعلٰی اخلاقی اقدار پر رکھی گئی ہو، جیسے عدل و انصاف، مساوات، سچائی وغیرہ۔ وہ جس حد تک خود مسلمان تھے، اسی حد تک اسلامی ریاست کے بھی قائل تھے۔ تقسیم کی بنیادی وجہ ہندوؤں کا مسلمانوں سے مذہب کی بنیاد پر تعصب اور بُرا معاشرتی سلوک تھا، جس نے وقت کے ساتھ ایک کمیونٹی کے طور پر مسلمانوں کو احساس دلایا کہ انہیں ہندوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہوگا۔
میں مسلمانانِ ہند کی اس ہجرت یا تحریکِ قیامِ پاکستان کو مسلمانوں کی ابتدائی ہجرت کی طرح دیکھتا ہوں، مشرکینِ مکہ نے جب مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ کر لیا اور انہیں صرف اسلام قبول کرنے پر طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے مدینہ و حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ کی طرف ہجرت میں ان کا مقصد اسلامی حکومت کا قیام نہ تھا، صرف خود کو تکالیف سے بچانا مطلوب تھا، جبکہ مدینہ میں انہیں موقع ملا تو اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہاں بھی جب ہندوؤں نے مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ کیا تو انہیں اپنے لئے الگ ملک کی ضرورت محسوس ہوئی، جو سو فیصد نہ تو مذہبی ہو نہ ہی مکمل سیکولر۔ جیسے قائد و علامہ اسلامی جمہوریت کی بات کرتے تھے، صرف اسلامی ریاست یا صرف جمہوری ریاست کی نہیں بلکہ اسلامی جمہوری ریاست تو ایسے ہی ان کا نظریہ صرف سیکولر ریاست کا نہ تھا، ہاں اسلامی سیکولر ریاست کہا جاسکتا ہے، جس کی نظر میں شہری برابر ہوں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، وہ ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بنائے، ہاں اس کی اپنی بنیاد اسلامی اعلٰی اقدار پر ہو۔ باقی کیا قائد و علامہ مکمل اسلامی فقہ نافذ کرنا چاہتے تھے، میں ایسا نہیں سمجھتا۔