قومی ایکشن پلان کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے
تحریر: نادر بلوچ
ملک بھر میں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادت دہشتگردی جیسے عفریت سے نمٹنے کیلئے ناصرف یکسو ہے بلکہ اب اس کا خاتمہ چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات میں پنجاب میں کالعدم جماعتوں، دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا جائیگا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے قوم کو وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں بتایا کہ عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان تاریخی کوآرڈینشن ہے، اس لئے وہ اپیل کرتے ہیں کہ ایسی باتیں نہ کی جائیں، جس سے یہ تاثر ابھرے کہ سیاسی اور عسکری قیادت الگ الگ راہ پر چل رہے ہیں یا ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی ابہام موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 13 سال سے دہشتگردی کیخلاف بغیر کسی حکمت عملی کے جنگ لڑی جا رہی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہمہ جہتی پروگرام کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملک سے دہشتگردی کے تمام نیٹ ورکس اور 70 فیصد تک دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
پنجاب میں کالعدم جماعتوں کیخلاف آپریشن کا اعلان کرکے وفاقی حکومت نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ فقط کراچی میں ہی آپریشن جاری ہے جبکہ دیگر صوبوں میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ یہ اعلان صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد سامنے آیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں آپریشن کا اعلان اس چیز کو ثابت کرتا ہے کہ صوبائی وزیر کی شہادت کے پس پردہ ہاتھ اور عناصر پنجاب میں ہی موجود ہیں، جو ملک بھر میں دہشتگردی کو پننے اور کارروائیاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی میں شدت آگئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ آپریشن فقط کالعدم جماعتوں کیخلاف ہی محدود رہے گا، کیونکہ یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں کی بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جو اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ پنجاب حکومت آپریشن کی آڑ میں اپنے سیاسی حریفوں کو بھی سبق سکھانا چاہتی ہے۔
اگر پنجاب حکومت نے اس روش کو بند نہ کیا اور نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اپنے سیاسی حریفوں کو کچلنے کی پالیسی پر گامزن رہی تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ وہ جماعتیں جو دہشتگردی کیخلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہی ہیں، اگر انہیں کچلنے کی پالیسی جاری رہی تو اس آپریشن پر کئی سوالات کھڑے ہوجائیں گے، جس کی مسلم لیگ نون کو سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑیگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت اس آپریشن پر پوری قوم متفق ہے اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں چاہتی ہیں کہ تمام کالعدم جماعتوں کیخلاف بغیر کسی تخصیص کے آپریشن جاری رہنا چاہیئے اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہنا چاہیئے، لیکن اسے کسی صورت سیاسی نہیں بنانا چاہیئے، ورنہ قوم کو جہاں اس سے مایوسی ہوگی وہیں ملک و قوم کیلئے بننے والے حقیقی تھیرٹس اپنی جگہ برقرار رہیں گے اور قومی ایکشن پلان اپنی اہمیت کھو دیگا۔ مسلم لیگ نون کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی کسی بھی حرکت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے، جس سے معاشرے میں اضطراب پیدا ہو۔ علامہ امین شہیدی جیسی شخصیت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونا اور 27 اگست کو پیشی کے موقع پر ممکنہ طور پر گرفتاری جیسا احمقانہ فعل پنجاب حکومت کے سیاسی انتقام کو واضح کرنے کیلئے کافی ہوگا۔