شام كے بعد امريكہ كا اگلا ٹارگٹ کون؟؟
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
ہر منصف اور ذی شعور شخص جو مشرق وسطٰى كے حالات سے باخبر رہتا ہے، وه اچھی طرح جانتا ہے كہ يہ وحشيانہ جنگ جو سوريہ پر مسلط كی گئی، اس كے مقاصد كيا تھے۔؟ سوریہ كا قصور يہ ہے كہ وه حقيقی معنوں ميں ايک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اقتصادی، سياسی، امن و امان اور اجتماعی لحاظ سے مضبوط ملک تها اور اسرائيل كی آنکھوں كا كانٹا تها، كيونكہ وه كهل كر لبنان اور فلسطين كی آزادی كے لئے اٹھنے والى تحريكوں اور مقاومت و انتفاضہ كی بهرپور حمايت كرتا تها۔ امريكہ جو پوری دنيا پر مسلط ہونے كے لئے ہمیشہ كوشاں رہتا ہے، اسے يہ بات ہرگز گوارا نہیں تھی، کیونکہ وه ہمیشہ دوسرے ممالک و اقوام كو اپنا غلام بنانے، اسٹریٹیجک نقاط پر قبضہ جمانے اور ثروت لوٹنے كے درپے رہتا ہے۔ ان اہداف كے حصول كے لئے وه ايک عرصے سے مسلم ممالک كو اسلام كے نام پر تباه و برباد كرنے كی پاليسی پر عمل كر رہا ہے۔ وه اس خطے سے اسكی شناخت، پہچان اور اجتماعی و ثقافتی اصول سلب كر لينا چاہتا ہے، تاكہ نہ انكا ماضی رہے اور نہ مستقبل۔ اس مكروه سازش كی تكميل ميں متشدد اسلامی جماعتيں اور ممالک اسكی خدمت كر رہے ہیں۔ وه اس خطے ميں دينی، مذہبی، قومی اور قبائلی اختلافات كو جنم دے رہے ہیں، مسلمانوں كی باہمی وحدت كو پارہ پارہ اور انہیں كمزور كر رہے ہیں۔
خطے ميں امريكہ كے خلفاء:
يہ بات روز روشن كی طرح عياں ہے كہ اسرائيل، تركی، سعودی عرب خطے ميں امريكا كے قريبی دوست اور حليف ہیں اور دوسری جانب امريكن آفيشلز كے اعترافات كے مطابق وہابی اور تكفيری قوتيں ہیں جو كہ امريكی و مغربی منصوبوں پر عمل پيرا ہیں اور خطے كے ممالک كا قومی استقلال اور امن و استقرار تباه كرنے كيلئے اور عوام كو دهوكہ دينے كيلئے مندرجہ ذيل تين حربے استعمال كر رہے ہیں۔
1۔ ڈیموکریسی اور جمہوريت كی بحالی
2۔ حريت اور آزادی
3۔ دينی اقدار كا احياء اور خلافت اسلامی كا قيام
حالانكہ جو ممالک جمہوريت اور ڈيموكريسی كی بحالی كيلئے ميدان ميں اترے ہوئے ہیں، وه خود رجرڈ، جاہل اور ظالم ہیں۔ انكے اپنے ممالک ميں جمہوريت اور ڈیموکریسی نہیں اور دوسروں كے لئے جس آزادی اور جن حقوق كی بات كرتے ہیں، لیکن ان ممالک كی اپنی عوام بھیانک غلامی كے شكنجوں ميں جکڑی ہوئی ہے اور جتنی اسلامی اقدار كی پامالی، دينی تعليمات كا استہزاء اور بدنامی ان متشدد اسلامی جماعتوں اور تكفيری دہشتگردوں نے كی ہے، اسكی تاريخ ميں كوئی مثال نہیں ملتی۔
روس اور چین نے شام كی مدد کیوں کی؟؟
روس اور چین اچھی طرح جانتے ہیں كہ امريكا اپنے ان خلفاء كے ساتھ ملكر اگلے مرحلے ميں ان کے لئے مسائل پيدا كرے گا۔ اس لئے انہوں نے ہر ميدان ميں شام كا ساتھ ديا ہے۔ جب بهی امريكہ اور اسكے خلفاء نے اقوام متحدہ كو شامی حكومت كے خلاف استعمال كرنے كی كوشش كی تو ان دونوں ممالک نے مل کر ڈبل ويٹو كا حق استعمال كرتے ہوئے امريكہ كا مقابلہ كيا۔ امريكہ اور اس كی جانب سے لگائی جانے والی تمام تر اقتصادی پابنديوں كے باوجود انہوں نے اقتصادی ميدان ميں شام كی مدد كی اور روس كی جانب سے شامی حكومت كو جديد ترين اسلحہ كی فراہمی اور ممكنہ امريكی كے حملوں كا راستہ روكنے كيلئے فوجی خبراء اور جنگی وسائل كا بهيجنا، اسی پاليسی كا حصہ ہے۔ كيونكہ وه جانتے ہیں كہ روس نے اگر انہیں يہاں شام میں نہ روكا تو خود روس دوسرا ہدف ہوگا اور روس كا امن و استقرار تباه ہوگا۔ روسی نائب وزير خارجہ اوليگسيرو موليٹوف كے بقول اس وقت شام اور عراق ميں تقريباً 2200 مسلح روسی نژاد دہشت گرد داعش كی صفوں ميں لڑ رہے ہیں اور روس اس تنطيم كے زعماء كے ان بيانات اور اعلان كو سیریس لے رہا ہے "كہ وه جہاد كو سنٹرل ايشاء اور قفقاز ميں منتقل كرنے جا رہے ہیں۔” اور جب كچھ عرصہ پہلے اخوان المسلمين اور ديگر اسلامی متشدد جماعتوں نے اپنے ميڈيا ميں شور مچايا اور بهرپور پروپیگنڈہ کیا كہ چينی حكومت نے اووی گور مسلمانوں كے روزه ركهنے پر پابندی لگا دی ہے اور انہوں نے اپنے چينلز اور مجلوںوں، اخباروں،سوشل ميڈيا اور ويب سائٹس پر اووی گور مسلمانوں كی نصرت اور مدد كی ندائیں بلند كيں۔ پروپیگنڈہ كا انداز وہی تها جو عراق اور شام ميں اپنايا گيا اور چینی (كفار) كيخلاف جنگ پر اكسايا گیا۔ يہ وہی امريكی حربہ اور منطق و سوچ ہے، جسے ہر جگہ استعمال كيا جاتا ہے۔ جيسے یہی حربہ، منطق و سوچ عراق و شام اور ايران، يمن و روس كے خلاف استعمال ہوئی۔
تركی كے صدر رجب طيب اردگان اور اس كی جماعت جو كہ اخوان المسلمين كا حصہ ہے، انہوں نے اس پروپیگنڈہ ميں كليدی كردار ادا كيا۔ قطر كے الجزيرہ چينل اور سعودی عرب كے العربيہ چینل نے بهی روٹین كے مطابق فتنہ پھیلانے ميں كوئی كسر نہیں چھوڑی۔ تركی كے دسيوں شہروں اور ديگر كئی ممالک ميں مظاہرے ہوئے، انگلش اور چائنی زبان ميں چائنی بادشاہت كے خاتمے كے نعرے بلند كئے گئے اور پاكستان تو اس ميں پہلے ہی سبقت حا
صل كرچکا تها، دارالحكومت اسلام آباد ميں لال مسجد كے مجاہدين اور ديگر چند ايک جگہوں پر چینی سياحوں پر حملہ آور ہوچکے تهے۔ امريكہ كے ہمنواء تمام چينلز نے چين كو اسلام دشمن ثابت كرنے ميں كوئی كسر نہیں چھوڑی. اس پروپیگنڈہ كے نتيجے ميں تركی كے شہر استنبول ميں موجود چینی ہوٹل پر حملہ ہوا اور ہوٹل كے مالک كو چینی باشندہ ہونے كے جرم ميں خوب مارا اور انہيں بعد ميں پتہ چلا کہ وه مار كهانے والا چینی شخص اوويگور مسلمان تها۔ اسی طرح سياحوں كی ايک بس پر يہ سمجھ كر حملہ كيا گیا كہ وه چائینیز ہیں اور بعد ميں پتہ چلا كہ وه ساوتھ كوريا كے سياح تهے۔ اگر ماه رمضان ميں بيگناه يمنی مسلمانوں كو قتل كيا جائے، ميزائلوں سے انكے گھر بار ويران كر ديئے جائيں اور پاكستان، عراق، مصر، كويت، سعودیہ اور شام ميں خودكش حملے ہوتے رہیں تو كسی مسلمان كی غيرت بيدار نہیں ہوتی اور كوئی آواز بلند نہیں كرتا، دنيا كا نام نہاد آزاد ميڈيا تب گونگا كيوں ہوجاتا ہے۔؟ چین كی وزارت خارجہ نے تركی كے اس رويہ پر ناراضگی كا اظہار كيا اور انقره سے اس متشدد موقف كی تفاصيل طلب كيں۔ مصر كے دارالحكومت قاہره ميں چائنا كے سفير (سونجآيگوه) نے دعوت افطار کی، جس كا اہتمام چینی سفارتخانے نے كيا تها، اس میں اس بات کی وضاحت پیش کی كہ يہ تمام تر معلومات كہ چین میں اوويگورز مسلمانوں پر روزه ركهنے كی پابندی ہے، یہ سب جھوٹ ہے، اس پروپيگنڈہ كی كوئی حقيقت نہیں، چینی حكومت دينی شعائر كا احترام كرتی ہے، چینی دستور ميں درج ہے كہ ہر شہری كو عقيدتی لحاظ سے مكمل آزادی ہے، نہ حكومت اور نہ ہی كوئی فرد يا ادارہ لوگوں كو دين اختيار كرنے پر مجبور كرسكتا ہے اور نہ ہی دينی شعائر سے روک سكتا ہے۔
شام ميں 3500 چینی اووی گوريوں كی بستی آباد
ابهی حالیہ ميادين چينلز نے رپورٹ نشر كی ہے اور مقامی لوگوں سے معلومات حاصل كرتے ہوئے بتايا ہے كہ گذشتہ ماه سوريہ كے شمال مغربی شہر جشر شغور جو كہ تركی كے بارڈر پر واقع ہے، اس كے نواح ميں ايک الزنبقہ نامی گاؤں ہے اور يہ گاؤں شامی تركی بارڈر سے فقط 500 میٹر كے فاصلے پر واقع ہے، وہاں پر علوی مذہب كے لوگ آباد تھے۔ اس دہشتگردی اور جنگ كی بدولت وه نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اب مقامی لوگوں نے بتايا ہے كہ تركی انٹيلی جنس كی سرپرستی اور داعش اور النصرہ كی مدد سے الزنبقہ نامی گاؤں میں 3500 چینی اووی گور دہشت گردوں كو بسايا جاچكا ہے۔ اس وقت چین اور پاكستان كا مشتركہ اقتصادی و تجارتی منصوبہ امريكا اور اس كے حلفاء كی آنكهوں كا كانٹا بن چكا ہے، یہ منصوبہ نہ فقط پاكستان اور چین كو اقتصادی طور پر مضبوط كرے گا بلكہ یہ پورے خطے ميں اقتصادی اور تجارتی انقلاب لائيگا۔ دوسری طرف پاكستان اور چائنہ دشمن ممالک اس كو سبوتاز كرنے كے درپے ہیں۔ پاكستان كے اندر تكفيری گروه اور متشدد اسلامی جماعتيں، اسی طرح امريكہ اور اس كے حلفاء كے وفادار سياستدان اور بیوروكريٹس بهی مشكلات ايجاد كرسكتے ہیں۔ دہشت گردی اور تكفيريت كے خلاف نيشنل ايكشن پلان كو جو قوت بھی ڈائیورٹ كرنے كی كوشش كرے گی اور بيگناہوں اور دہشتگردوں سے ايک جيسا سلوک كرے گی، وه پاكستان، پاكستانی عوام، ہماری مسلح افواج اور شهداء كے خون سے خيانت كرے گی۔ ضرب عضب كی تكميل اور دہشت گردی کے مكمل خاتمے كے بغير ہم بحرانوں سے نہیں نكل سكتے۔ پاكستانی حكمرانوں كو دوغلى پاليسی ترک كرنا ہوگی اور جو ممالک ان دہشت گردوں كی فكری و مالی مدد كر رہے ہیں، ہمیں انہیں پاكستان كا دشمن سمجهنا ہوگا، اور جو ممالک ہماری طرح ان تكفيری دہشتگردوں سے لڑ رہے ہیں، انكے ساتھ احترام متقابل كے قاعدہ كے تحت روابط كو مضبوط كرنا ہوگا۔