محرم الحرام ۔۔۔ اللہ بہترین تدبیر کرنیوالا ہے
تحریر: سجاد احمد مستوئی
sajjadahmadmastoi@gmail.com
کربلا توحید کی فتح کا نام ہے۔ امام حسین نے کربلا میں قربانی دے کر توحید، نبوت، ولایت اور جرات و شجاعت کو ابدی حیات بخشی اور کربلا کے بعد کوفہ و شام کے بازاروں و درباروں میں جاکر ثانی زہراء حضرت زینب ؑاور امام سجادؑ نے قربانی و مقصد امام حسینؑ کو حیات جاویدانی عطاء کی۔ جی چاہتا ہے کہ آج بات کچھ یزید کے مکر و فریب کی ہوجائے، یزید کے مکر پر بات کرنے سے پہلے ہم تھوڑی سی بات مادہ “مکر“ پر بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی اردو زبان میں مکر، دھوکہ و فریب کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے اور عربی میں مکر کا معنی چال، چالاکی، دوراندیشی، منصوبہ بندی اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔ قرآن میں بھی اللہ نے مادہ مکر کو خفیہ تدبیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “کافروں نے بھی مکر کیا اور اللہ نے بھی“ اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔[1]
اب آیئے دیکھتے ہیں کہ کربلا کی جنگ کے بعد یزید نے کیا مکر کیا اور اللہ نے کیا خفیہ تدبیر کی۔ اس کو ہم اس مثال سے واضح کرتے ہیں کہ تاریخ کے اوراق میں بات درج ہے کہ نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا، ایک بندے کو جلانے کے لئے کتنی لکڑیوں کی ضرورت ہے، بیس کلو، چالیس کلو، زیادہ سے زیادہ دو من، دو من لکڑی لے کر نمرود حضرت ابراہیمؑ کو جلا دیتا، کیوں اس نے اعلان کیا کہ میری سلطنت میں رہنے والا ہر شخص لکڑیاں لے کر آئے ۔۔۔ دراصل نمرود ایک چال چل رہا تھا، وہ یہ کہ نمرود دنیا والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ میں توحید کو جھٹلا کر اپنے مقابلے میں آنے والے نمائندہ توحید کو جلانے جا رہا ہوں۔ گویا میں اعلانِ توحید کا مقابلہ کرنے جا رہا ہوں۔ لوگو! آکر دیکھو میرے مقابلے میں آنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لوگ گھوڑوں، اونٹوں، کدھوں پر لکڑی لاکر جمع کرنے لگے، لکڑیوں کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگ گیا۔ آگ جلائی گئی، آگ کی شدت اتنی تھی کہ کئی کلو میٹر تک اس کی تپش جا رہی تھی۔ ایک منجنیق کے ذریعے سے حضرت ابراہیمؑ کو اس آگ میں ڈالا گیا، اب نمرود نے انتا بڑا انتظام کیا، لکڑی جمع کی، لوگ بلائے ۔۔۔ لیکن پروردگار نے صرف آگ کو حکم دیا کہ گلزار ہوجا! آگ گلشن میں تبدیل ہوگئی اور نمرود کی ساری کی ساری منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا۔ اسی طرح اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر کے ذریعے سے اپنے نبی کو امتحان میں کامیاب فرما کر توحید کو فتح عنایت فرمائی۔
دوسری طرف یزید نے بھی واقعہ کربلا کے سلسلے میں ایک چال چلی، اس وقت عرب میں یہ قانون تھا کہ جنگ کے بعد بچ جانے والوں کو قیدی بناکر قید خانے میں رکھتے تھے، یا کچھ رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے، لیکن یزید نے اپنے منصوبے کے مطابق کربلا کی جنگ کے بعد زندہ رہ جانے والے بچوں و خواتین کو قیدی بنا کر بازاروں میں لے جانے کا حکم دیا اور کوفہ و شام میں منادی کرا دی کہ فلاں دن سارے لوگ بازاروں میں جمع ہو کر خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والے قیدیوں کا تماشا دیکھیں۔ یزید اور ابن زیاد یہ چاہتے تھے کہ جونہی یہ قیدیوں کا قافلہ بازار میں داخل ہوگا، ہم اعلان کریں گے کہ لوگو! دیکھو جس خدا کے بارے میں یہ بنو ہاشم کہتے تھے، وہ کہاں ہے، اگر خدا ہوتا تو اپنے ان بندوں کی مدد کرتا، پس ان کی بیچارگی و بے بسی سے ثابت ہوا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔
یہ یزید کا مکر تھا کہ اس نے اتنا بڑا انتظام کیا، لوگوں کو جمع کیا، بازار سجائے ۔۔۔ لیکن اب خدا کی خفیہ تدبیر دیکھیے، جونہی قافلہ بازار میں داخل ہوا تو اللہ تعالٰی نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر اقدس سے قرآن جاری فرما کر لوگوں میں یہ ثابت کر دیا کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو اس کٹے ہوئے بغیر جسم کے سر سے قرآن پڑھوا رہی ہے اور اس صاحب سر کا اس ہستی سے گہرا تعلق ہے کہ مر کر بھی زبان پر ذکر صرف خدا کا ہے۔ اسی طرح سے اللہ تعالٰی نے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان مقدس ہستیوں کے ذریعے اپنی توحید کو فتح عطاء کی، خصوصاً جب کوفہ کے دربار میں یہ قافلہ پہنچا تو ابن زیاد نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا خدا کہاں ہے بلکہ کہا کہ دیکھو اللہ نے تمھیں کتنا ذلیل کیا ہے، اس پر حضرت زینب ؑ نے ایک خوبصورت جملہ کہا کہ "ما رایت الّا جمیلا” یعنی میں نے اللہ کے جمال کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، اور یوں یزید کی بچھائی ہوئی بساط الٹ گئی، توحید کو فتح اور کفر و شرک کی حیلہ کاروں کو دائمی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ہر سال محرم الحرام آکر اعلان کرتا ہے۔۔۔ "مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین”
[1] ومکروا و مکر اللہ واللہ خیر المٰکرین (آل عمران آیت 54)