شیخ باقر النمر۔۔۔ سعودی عرب کو خطرہ ہے مگر کس سے؟
تحریر: نذر حافی
موت بھی ایک وزن رکھتی ہے۔ موت کو بھی تولا جاسکتا ہے۔ موت کا وزن مرحوم کی شخصیت کے مساوی ہوتا ہے۔ کسی کی موت سے صرف اس کی گھر والے، عزیز اور رشتے دار متاثر ہوتے ہیں، کسی کی موت سے ایک پورے شہر کا دل درد سے بھر جاتا ہے، کسی کی موت کئی شہروں کو اداس کر دیتی ہے، کسی کی موت سے پورا ملک ہل جاتا ہے اور کسی کی موت پوری دنیا کو ہلا دیتی ہے۔ بلاشبہ گذشتہ دنوں میں افریقہ کے شیخ زکزاکی پر حملے اور شیخ باقر النمر کی سزائے موت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بات صرف سعودی عرب اور ایران کی نہیں، بات عالمی برادری کے ردعمل کی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شدید تناو آیا ہے اور اس سے زیادہ بھی حالات سنگین ہوئے ہیں، لیکن بین الاقوامی برادری نے اس سے پہلے کبھی اس طرح سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا۔ بین الاقوامی برادری خصوصاً اسلامی دنیا نے اس دفعہ سعودی عرب کی شدید مذمت کی ہے۔ اس مذمت کی خاص وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کا عام ہونا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ سعودی عرب کے بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ اور خادم الحرمین شریفین کہہ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور بعض اب بھی ان کی پوجا کرتے ہیں، لیکن ایک عام اور غیر متعصب مسلمان اب سعودی عرب کی حکومت، آل سعود کے عقائد اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پائے جانے والے اسلام کو اچھی طرح سمجھ چکا ہے۔ حتّی کہ سعودی حکومت کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آلِ سعود کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والے طالبان اور داعشی گروہوں میں بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو کہ آلِ سعود کو خالصتاً امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں شدت پسندوں کو ٹریننگ دینے، خودکش دھماکے کروانے، مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور اسلام کا لیبل استعمال کرنے کے باعث، خصوصاً سانحہ منٰی کے بعد سے لوگوں کے سامنے آل سعود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے مسلمان آلِ سعود کے صیہونی ہونے کا تجربہ کرچکے ہیں، بحرین میں سعودی افواج کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں، یمن میں سعودی عرب کا بھرکس بن رہا ہے، شام میں آل سعود کی دُم پر پاوں آیا ہوا ہے، عراق میں سعودی عرب کے دانت کھٹے ہوچکے ہیں، پاکستان میں ہر باشعور پاکستانی، سعودی عرب کے دہشت گردی کے کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے، کشمیر میں لوگ سعودی جہاد کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ افغانستان میں آل سعود کو خنّاس سمجھا جاتا ہے۔۔۔ ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے 34 ممالک کے اتحاد کا من گھڑت اعلان کرنا دراصل گرتی ہوئی سعودی بادشاہت کو بچانے کی ایک ادنٰی سی کوشش ہے۔ یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب اکثر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس اتحاد سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ سعودی اتحاد سے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے انکار نے سعودی حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ اب اسلامی دنیا، اسلام کے نام پر بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اس وقت امریکہ و اسرائیل کی چاکری اور اپنے وہابی عقائد کے باعث سعودی عرب عالمِ اسلام کو اپنے پرچم تلے جمع کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اب سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو “ایران دشمنی“ پر جمع کیا جائے۔ دنیا کو ایران دشمنی پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو ایران سے ڈرایا جائے۔ ”ایران سے ڈرانا” دراصل امریکہ اور اسرائیل کا ایک کاروباری ہتھکنڈہ ہے، مغربی قوتیں اور امریکہ عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر ایک لمبے عرصے سے معدنیات اور تیل کے ذخائر کو لوٹ رہے ہیں۔ چنانچہ ایران سے ڈرانے کا نسخہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس نسخے کے تحت شیخ باقر النّمر کی سزائے موت پر ہونے والے ردّعمل کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف اعلانیہ سفارتی جنگ شروع کردی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ایک دم ایران اور سعودی عرب کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں، حالانکہ 34 ممالک کے اتحاد کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ ماحول جان بوجھ کر بنایا گیا ہے۔
“ایران دشمنی” پر لوگوں کو جمع کرنے کی گیم بھی اب زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں، چونکہ وہ زمانہ گزر گیا کہ جب مداری ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کر لیتے تھے اور چٹکلے سنا کر ان سے پیسے لیتے تھے۔ اب دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور لوگ خبری چٹکلوں اور سیاسی بیانات کے بجائے، تحقیق اور تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس وقت سعودی عرب کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بن کر ایران دشمنی کی فضا بنانے کے بجائے اپنی اصلاح ِ احوال پر توجہ دے۔ دنیا بھر میں شدت پسند ٹولوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے اور اپنی ریاستی عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کا احترام کرے۔ سعودی حکومت کو اس وقت حقیقی خطرہ ایران کے بجائے ان مظلوم سعودی عوام سے ہے، جن کے مقدس ملک کو امریکہ اور اسرائیل کی کالونی بنا دیا گیا ہے، جن کی غیرتِ دینی کو مذاق بنا دیا گیا ہے، جن کے جذبہ جہاد کو نیلام کیا گیا ہے، جن کے معدنی ذخائر کو کفار اور یہود پر لٹایا جا رہا ہے، جن کی مقدس دھرتی پر پائے جانے والے مقدس مقامات کو مسمار کر دیا گیا ہے اور جن کے سیاسی و جمہوری حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے مظلوم لوگ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنّی بھی ہیں۔ یہ سب مظ
لوم ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔