تعلیمی اداروں کا تحفظ ، ہماری نئی نسل کے مستقبل کیلئے ناگزیر ہے، امیر حیدر ہوتی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ جب بھی پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں پاکستان میں تکفیری دہشتگردوں کے حملوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ خطے کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے لازمی ہے کہ بلیم گیم اور بداعتمادی کی بجائے دونوں ممالک اعتماد سازی پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اے این پی سیکرٹریٹ سے جاریکردہ بیان کے مطابق اُنہوں نے دہشتگرد کارروائیوں کی تعداد میں اضافے اور باچا خان یونیورسٹی پر کیے گئے حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے گارڈز نے اس کے باوجود بہادری کا مظاہرہ کیا کہ ان کی ٹریننگ ایسے حملوں سے نمٹنے کیلئے نہیں ہوتی۔ اگر گارڈز نے بروقت مزاحمت نہ کی ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی اور اے اپی ایس واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی۔
اُنہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس اداروں نے جس نوعیت کی اطلاعات فراہم کی تھیں اس تناظر میں یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ ترجیحی بنیادوں پر سیکیورٹی کے انتظامات کیے جاتے اور کسی قسم کی روایتی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تاہم ایسا کرنے سے گریز کیا گیا جس کا نتیجہ سانحہ چارسدہ کی شکل میں نکل آیا۔اے این پی کے صوبائی صدر نے مزید کہا کہ سانحہ چارسدہ کے بعد اس بات کی پھر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی کاکردگی اور فعالیت پر نظر ثانی کی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کا تحفظ یقینی بنانا ہماری نئی نسل اور بچوں کے مستقبل کیلئے ناگزیر ہے۔ اس قسم کے حملوں کا مقصد ہمارے بچوں کو تعلیم اور تعلیمی اداروں سے محروم رکھنے اور دور کرنے کی کوشش ہے،اور اس کوشش کو ہمیں بہر صورت ناکام بنانا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی حالیہ دوطرفہ لہر نے عوام کی تشویش میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور اگر اس سے نمٹنے کیلئے درکار اقدامات نہیں کیے گئے تو خطہ بدترین حالات کا شکار ہو جائے گا اور صورتحال قابو سے باہر ہو جائیگی