ترکی بڑی جنگ کی تیاری چھپا رہا ہے؟
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) ترکی کا روس کو نگہدار پرواز سے انکار کرنا، شام کی سرحد پر اپنی غیر قانونی جنگی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش ہے، جمعرات کو روس کی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کوناشینکو نے کہا۔ اس ضمن میں ان کے مطابق روس کی وزارت دفاع ترکی کی جانب سے کھلے آسمان بارے سمجھوتے کی خلاف ورزی پر متعلقہ ردعمل کیے بغیر اور بنا ضروری توجہ دیے نہیں رہے گی۔ مستزاد یہ کہ روس نے پہلے سے ہی متعلقہ سمجھوتے کے مطابق ترکی سے یکم فروری سے پانچ فروری تک نگہدار پرواز کی اجازت لی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق آج مبصروں کی ٹیم عیسکی شہر کے فضائی اڈے پر پہنچی اور انہوں نے نگہدار راستہ ترکی کے نمائندے کے حوالے کیا۔
تاہم ترکی کی وزارت دفاع کے نمائندے نے شام کی سرحد کے نزدیک والے خطے اور اس فضائی اڈے کے اوپر جہاں نیٹو کے طیارے موجود ہیں نگہدار پرواز کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس رویے کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی” میجر جنرل موصوف نے بتایا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کھلے آسمان کے سمجھوتے کے مطابق 2015 میں مغربی ملکوں کے نمائندوں نے روس میں اپنے طے کردہ راستوں پر اس قسم کی 32 پروازیں کی تھیں۔ ان میں سے چار پروازیں ترکی کے نمائندوں نے کی تھیں جن میں سے دو امریکی فوجیوں کی معیت میں کی گئی تھیں۔ اس دوران روس کی جانب سے کسی غیر قانونی جنگی سرگرمی سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی گئی تھی۔
ترکی کی جانب سے نگہدار پرواز کی اجازت نہ دیے جانے کو سادگی پر محمول کیا جا سکتا ہے کیونکہ مدار میں پرواز کرنے والے مصنوعی سیارچوں کو ترکی کی اجازت درکار نہیں ہوگی، اخبار “وزگلیاد” نے لکھا۔ معروضی کوائف ثابت کرتے ہیں کہ ترکی کی فوج رسل و رسائل کی کسی کارروائی میں مصروف ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے وہ حملے کی صورت میں عقبی چوکی تیار کر رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ اندازہ لگانے کی بنیاد موجود ہے کہ ترکی کی فوج اگر پہلے سے تیاری نہیں کر چکی تو شام کے سرحدی علاقے میں حملے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روس کو نگہدار پرواز نہیں کرنے دے رہی۔ آخری دورانیے میں مصنوعی سیارچے سے حاصل شدہ کوائف کو مانا نہیں جا رہا۔ اس طرح بین الاقوامی نگہدار پرواز ایک اور طرح کی دلیل ہوتی۔ چنانچہ ترکی کی خواہش ہے کہ یہ نہ ہو۔
معاملہ شام کی سرحد کے نزدیک ترکی کی توپوں کے حتمی مقامات کا نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ترکی کے لیے شام کے معاملہ سچ کے لمحے پر پہنچ گیا ہے۔ عسکری منصوبے کے مطابق شام کی فوج نے حمس اور حلب کے صوبوں میں شیعہ اور عیسائی آبادیوں والے خطوں کے درمیان بندش دور کر دی ہے اور عدلب سے جنگجووں کی رسائی روک دی ہے مطلب یہ کہ ترکی سے۔ صوبہ لذاقیہ پر شدید حملوں کی وجہ سے بھی جنگجو ترکی سے کٹ چکے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حلب میں ہے، ترکمانوں کا خطہ تقریبا” سارا ہی شامی فوج کے تحت آ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں انقرہ نہ صرف شام میں کرد دستوں پر اثر انداز ہونے سے قاصر ہو چکا ہے بلکہ اپنی سرزمین پر بھی۔
انقرہ کو یہ زیادہ سودمند لگتا ہے کہ وہ نیا تصادم مول لے لے۔ ممکن ہے اس تسادم میں روس اور نیٹو کو بھی کھینچ لیا جائے۔ روس کو نگہدار پرواز کی اجازت نہ دینا اس سلسلے کی کم سے کم کڑی ہے۔