مضامین

کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ بیانات سے جیتی جا سکتی ہے؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ضلع کچہری کے قریب خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم دس افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ سرکاری حکام کے مطابق ’دھماکہ اس وقت ہوا جب ایف سی کی ایک گاڑی ضلع کچہری کے سامنے سے گزر رہی تھی۔‘حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں فوسرز کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں تین ایف سی اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 15 زخمی ہیں۔دھماکے کے نتیجے میں راہ گیر بھی ہلاک ہوئے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ڈی آئی جی آپریشنز سید امتیاز شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ خودکش بم دھماکے میں 10 سے 15 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔ڈی آئی جی کے مطابق حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان خراسانی گروپ نے قبول کی ہے۔زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ میں منتقل کیا گیا ہے جبکہ شدید زخمیوں کو سی ایم ایچ کوئٹہ میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان انور کاکڑ کے مطابق حملہ خودکش تھا جس میں سکیورٹی فورسز اور فرنٹیئر کور کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔انھوں نے بتایا کہ ’خودکش حملہ آور سائیکل پر سوار تھا۔‘خیال رہے کہ ضلع کچہری کے نواح میں کوئٹہ پریس کلب اور مختلف سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف اور وزیر اعظم روز اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیا جائے گا مگر وہ ادھر ادھر ہمارے بیچ ہی کہیں موجود رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ہمارے اعلانات کا خاکہ اڑاتے ہیں۔ دوسری طرف دنیا اگرچہ مہذب ہو چکی ہے اور یقین دلایا جاتا ہے کہ اختلافات کا واحد حل پرامن مذاکرات ہی میں مضمر ہے لیکن پھر بھی پراہا میں بیس لوگوں کا ایک گروہ پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کو نذر آتش کرکے یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک معرکہ سرانجام دیا ہے۔ پراہا ہی کی سڑکوں پر ہزاروں لوگوں نے اسلام کے خلاف نعرے بازی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ بھی مسلمانوں کو کچا چبانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر بھی اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی یورپ کو خبردار کررہی ہیں کہ اسلام کے خلاف پھیلنے والی نفرت، شعلوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

یہ شعلے تو کب کے ہمارے گھروں کو جلا کر راکھ کررہے ہیں۔ ہم ان کی تپش بھی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس آگ کو بجھا دیا جائے لیکن ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے کہ جسم سے بم باندھے دہشت گرد معصوم ہیں یا انہیں قصور وار مان کر قوم کو ان کے خلاف سینہ سپر ہونے کا پیغام دیا جائے۔ یہ بھی طے نہیں ہو سکا ہے کہ کون سے عناصر صرف اسلام سے محبت کا حق ادا کررہے ہیں اور کون ملک دشمنی میں اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سادہ لوح لوگوں کو بہکا کر انہیں سیکورازم اور لبرل ازم کے گمراہ کن راستے پر لگانے کی تگ و دو کررہے ہیں ۔ اسی لئے ابھی یہ بھی طے ہونا ہے کہ ملک میں سیکولر روایت جسے سادہ لفظوں میں رواداری کا مزاج بھی کہا جا سکتا ہے، کو عام کرنے میں ’اسلام دشمنوں‘ کا ہاتھ ذیادہ ہے یا اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے اس قوم پر یہ ظلم کیا ہے۔ ہمارے دانشوروں اور اسلام کے نام پر قلمی جہاد کرنے والے دوستوں نے اس حوالے سے پیش قدمی تو کی ہے ، کبھی نہ کبھی اس راز سے پردہ اٹھانے میں بھی ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button