جنرل راحیل شریف کا ڈنڈا، نفرت پر مبنی مواد بیچنے والےتکفیری ملاں کو دس سال کی قید
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تکفیری ملاںایک طویل عرصے سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کی وڈیو ،آڈیع سی ڈیز اور کتابوں کی فروخت کررہا تھا ،گذشتہ سال ایک مقامی اہلسنت عالمِ دین کی جانب سے اس تکفیری ملاں کے خلاف درخواست جمع کرائے جانے کے بعد تکفیری ملاں کو تکفیریت پر مبنی مواد سمیت گرفتارکیا گیا تھا اور بعد اذاں جیل بھیج دیا گیاتھا۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ سال جہلم پولیس کی جناب سے تکفیریت پر مبنی مواد بیچنے والے 26 سالہ تکفیری ملاں سیف اللہ عرف سیفی کو جہلم انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔تفصیلات کے مطابق جہلم کے ایک مقامی اہلسنت عالم دین کی جانب سے مقامی پولیس تھانہ میں درخواست دی گئی تھی کہ جس میں یہ موقف اختیا کیا گیا تھا کہ مذکورہ تکفیری ملاں سرِ عام تکفیریت پر مبنی مواد فروخت کررہا ہے کہ جس کی بنیاد پر معاشرے میں عدم برداشت اور نفرت کارجحان بڑھنے میں آیا ہے۔ مقامی پولیس کی جانب سے پہلے تو حسب روایت سستی برتی گئی لیکن مذکورہ اہلسنے عالم دین اور دیگر علاقہ معززین کی جانب سے اپنی درخواست چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈر پاکستان آرمی کو بھیجنے کی دھمکی دیئے جانے کے بعد علاقہ ڈی ایس پی کی سربراہی میں قائم کی گئی پولیس پارٹی نے کاروائی کرتے ہوئے تکفیری ملاں سیف اللہ عرف سیفی کو بھاری تعدادمیں تکفیریت پر مبنی کتابوں،آڈیو،وڈیو سی ڈیز کے ساتھ گرفتار کرلیا۔
مقامی ڈی ایس پی کے مطابق 26 سالہ تکفیری سیف اللہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کی سی ڈیز اور کتب فروخت کرنے میں ملوث پایا گیا ہے۔پولیس نے مختلف اوقات میں سیف اللہ کی جسمانی ریمانڈ لیتے ہوئے اپنی تفتیش مکمل کرکے تکفیری ملاں کو جین منتقل کردیا۔مختلف پیشیوں کے بعد بلاآخر اس مقدمےکے جج رائے ایوب مرتھ نے گذشتہ روز کیس کا فیصلہ سنایا، جس کے مطابق سیف اللہ سیفی کو جان بوجھ کر نفرت آمیز مواد بیچنےکا مرتکب قرار دیا گیا۔ سیف اللہ عرف سیفی ایک دوکاندار ہے اور اس کا کام ہی تکفیریت پر مبنی مواد کی فروخت ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منشی نوید احمد نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’ سیف اللہ سیفی کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اس پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘ایک اور پولیس اہلکار کے گرفتار ہونے والے تکفیری ملاں کے قبضے سے مولانا ملاذم حسین ڈوگر کی شیعہ و بریلوی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر اور کتب کی ایک بڑی مقدار برآمد ہوئی ہے۔یاد رہے کہ مولانا ملازم حسین ڈوگر کا تعلق ایک کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہ کالعدم سپاہ صحابہ (اہلسنت و الجماعت) سے ہے۔ پولیس کے مطابق مولانا ملاذم حسین پہلے اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے اور پولیس اسکی تلاش میں مصروف ہے۔
ایک پاکستانی انگریزی اخبارکی رپورٹ کے مطابق مولانا ملازم حسین ڈوگر کے نام سے ایک فیس بک اکاؤنٹ بھی ہے جس کو 3000 سے زائد افراد فولو کر رہے ہیں۔ یہ وہ واحد واقعہ نہیں ہے جس میں نفرت انگیزی پھیلانے والے کی بجائے ایسے شخص کو تحویل میں لیا گیا ہو، جس کے پاس یہ مواد موجود تھا یا وہ اسے فروخت کر رہا تھا۔ اکتوبر 2014 میں اسلام آباد میں پولیس نے 16 شدت پسند مذہبی رہنماؤں کے خلاف کیس درج کیے تھے لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ان افراد نے سیشن عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کر لی تھی۔واضح رہے کہ پاکستانی انتظامیہ نے ملک بھر میں نفرت آمیز مواد کی تبلیغ کرنے والے افراد کے خلاف کریک ڈاؤں کا آغاز پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد کیا تھا۔ اس حملے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد شھید ہوئے تھے