عظمت حضرت زہرا (س) غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی
سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد” میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ اپنے ان تمام اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾ آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ ن
ے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ اس تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾