داعش ارب پتی کیسے بنی؟
تحریر: علی مہدی
ایک رپورٹ کے مطابق تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا 2015ء کا بجٹ 2 ارب ڈالر تھا، جس میں سے اسے 250 ملین ڈالر کی بچت ہوئی ہے۔ داعش اب محض ایک نظریاتی دہشت گرد تنظیم ہی نہیں بلکہ ایک غیر حکومتی بین الاقوامی کھلاڑی میں تبدیل ہوگئی ہے، جو اپنی دہشت گردانہ ماہیت کے پیش نظر اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حدود میں توسیع کیلئے کسی بھی نفع بخش غیر قانونی تجارت سے دریغ نہیں کرتی۔ داعش اس وقت فوجی ساز و سامان کی خرید، جنگجووں کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کیلئے روزانہ 2 ملین ڈالر کی محتاج ہے اور وہ اپنی یہ ضرورت خام تیل کی غیر قانونی تجارت اور لوٹ مار کے ذریعے پورا کرتی ہے۔ داعش کی آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں، جیسے خام تیل کی غیر قانونی فروخت، آثار قدیمہ کی اسمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، منشیات کی اسمگلنگ، انسانوں اور انسانی اعضاء کی اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی تجارتی ذرائع۔
امریکی خزانہ داری کے دہشت گردی اور مالی انٹیلی جنس کے مشیر ڈیوڈ کوہن کے مطابق 2015ء میں داعش کا بجٹ 2 ارب ڈالر تھا، جس میں سے اسے 250 ملین ڈالر کی بچت ہوئی ہے۔ اس طرح داعش تاریخ کے امیر ترین دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جارج میسن یونیورسٹی کے تھنک ٹینک TraCCC کے محقق لیوس شیلی کا خیال ہے کہ داعش کی آمدنی کے بڑے ذرائع غیر قانونی تجارت، بھتہ خوری اور منظم جرائم کے ارتکاب پر مشتمل ہیں۔ بھتہ خوری کے ذریعے آمدن زیادہ تر غیر ملکی شہریوں جیسے ملٹی نیشنل کمپنیز کے اہلکاروں کے اغوا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ داعش اس ذریعے سے کئی ملین ڈالرز کما رہی ہے۔
داعش کی کمائی کا ایک اور ذریعہ انسانی اعضاء کی اسمگلنگ ہے۔ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر لڑائی کے دوران گرفتار شدہ زخمی افراد کے اندرونی اعضاء فروخت کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں عراق کے نمائندے محمد الحکیم نے بتایا کہ عراق کے شہر موصل میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ قتل کئے جانے والے اکثر افراد کے جسم پر آپریشن کے نشانات موجود تھے اور اکثر افراد کے گردے نکال لئے گئے تھے۔ دمشق یونیورسٹی کے فارنزک سیکشن کے سربراہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چند سال کے دوران شام کے شمالی حصوں میں 18 ہزار سے زائد انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کی گئی ہے۔ ٹونی آتاناسیو، منظم جرائم کے ماہر اور یونیورسٹی پروفیسر کا کہنا ہے کہ اسمگل ہونے والا ہر انسانی عضو یورپ میں 2.5 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔
منشیات کا کاروبار دنیا کے تین نفع بخش ترین کاروباروں اور داعش کی آمدنی کا بڑا ذریعہ محسوب ہوتا ہے۔ روس کے اینٹی نارکوٹیکس یونٹ کے سربراہ وکٹر ایوانوف کے مطابق داعش کی جانب سے افغانستان سے یورپ منشیات اسمگل کرنے کی آمدنی 1 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یورپ اسمگل ہونے والی ہیروئن کا 50 فیصد حصہ عراق اور شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں اور افریقہ کی کمزور حکومت والے ممالک سے جاتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منشیات کی فروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ ترکی کی سرحد کے قریب واقع شہر نینوا سے ترکی میں قائم جدید مرکز تک پہنچایا جاتا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے علاوہ داعش نے موصل کے جنوب میں واقع قصبوں حمام العلیل اور محلبیہ میں واقع وسیع کھیتوں میں حشیش کاشت کر رکھی ہے۔
اسی طرح داعش شام کے شہر حلب میں بڑے پیمانے پر مصنوعی منشیات بنا رہی ہے۔ منشیات اسمگل کرنے والے گروہوں کی سرگرمیاں مجرمانہ ہونے کے باعث ان معلومات تک رسائی ممکن نہیں، جو حکومتی ذرائع اور انٹیلی جنس ادارے منشیات کی غیر قانونی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بارے میں رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کے اینٹی نارکاٹیکس سیل کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منشیات اسمگل کرنے والے گروہ سالانہ 400 سے 500 ارب ڈالر کی تجارت کرتے ہیں، جو دنیا بھر میں انجام پانے والی تجارت کا 9 فیصد ہے۔ دنیا کی ایک اور نفع بخش غیر قانونی تجارت انسانوں کی اسمگلنگ ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش دنیا کے دیگر منظم جرائم انجام دینے والے کریمینل گروہوں سے اپنے تعلقات کی مدد سے انسانوں خاص طور پر عیسائی اور ایزدی خواتین اور جوان لڑکیوں کی خرید و فروخت میں مصروف ہے۔
داعش کی جانب سے انسانوں کی اسمگلنگ کے بنیادی مراکز عراق کے شہر موصل اور شام کے شہر رقہ میں واقع ہیں۔ انسانی حقوق کے ہائی کمیشنر کی رپورٹ کے مطابق 25 ہزار سے زائد خواتین اور لڑکیاں جنگی قیدی کے طور پر داعش کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنی ہیں اور فروخت کی گئی ہیں۔ مزید برآں، داعش مہاجرین کی تجارت سے بھی کمائی حاصل کرتی ہے۔ داعش ہر مہاجر سے ترکی کی سرحد میں داخل ہونے کیلئے 8 ہزار ڈالر وصول کرتی ہے۔ یہ مہاجرین ترکی کے ذریعے یورپی ممالک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چونکہ مشرق وسطٰی خاص طور پر شام اور عراق میں بدامنی کی صورتحال بدستور جاری ہے، لہذا مہاجرین کی اسمگلنگ داعش کی مالی ضروریات پورا کرنے کا اہم ذریعہ جانا جاتا ہے۔ بعض عرب ممالک کی جانب سے مالی امداد ملنے کے علاوہ داعش کی ایک اقتصادی ٹیم بھی موجود ہے، جس نے اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکس، بھتہ خوری اور جزیہ وغیرہ کے قوانین بنا رکھے ہیں۔ عراق میں زراعت اور گندم کی پیداوار کا تیسرا ح
صہ داعش کے قبضے میں ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، شاپنگ مالز اور ریسٹورینٹس سے بھی یہ دہشت گرد گروہ ماہان چند ملین ڈالر بھتہ وصول کرتا ہے۔
خام تیل کی غیر قانونی فروخت داعش کے نفع بخش آمدنی ذرائع میں شمار ہوتی ہے۔ شام کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق شام کی خام تیل کی کل پیداوار روزانہ 60 ہزار بیرل ہے، جو پوری کی پوری حکومت کے باغی قبائل کے ہاتھوں میں ہے اور اس کا 60 فیصد حصہ داعش کے اختیار میں ہے۔ لیکن چونکہ داعش کے پاس خام تیل نکالنے کیلئے کافی حد تک وسائل موجود نہیں، لہذا کل مقدار کا صرف 20 فیصد حصہ نکال کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ داعش اپنے پاس موجود خام تیل کی بہت کم مقدار شام کے اندر استعمال کرتی ہے، جبکہ اکثر حصہ بلیک مارکیٹ اور ترکی کو بیچ دیا جاتا ہے۔ داعش خام تیل انتہائی کم قیمت پر بیچ رہی ہے جو تقریباً 10 سے 20 ڈالر فی بیرل ہے۔ عراق میں داعش کی جانب سے خام تیل کی غیر قانونی تجارت کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔
اس وقت داعش نے عراق میں تیل کے 14 کنووں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ان کنووں سے روزانہ 80 ہزار بیرل انتہائی کم قیمت پر ترکی، کردستان، اردن اور دیگر علاقوں کو بیچے جاتے ہیں۔ عراق کے خام تیل کی فروخت سے داعش کو روزانہ دو ملین ڈالر سے زیادہ آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ داعش کے پاس ساز و سامان اور اسلحہ خریدنے، دہشت گردوں کی تنخواہ دینے اور دوسرے فوجی اخراجات پورے کرنے کیلئے صرف خام تیل کی تجارت ہی نہیں بلکہ دیگر مالی ذرائع بھی موجود ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق داعش بڑے پیمانے پر عراق اور شام کے آثار قدیمہ بیچ رہا ہے اور اس راستے بہت زیادہ پیسہ کما رہی ہے۔ یہ آثار قدیمہ ترکی کے راستے یورپی ممالک اسمگل کروائے جاتے ہیں۔
داعش ایک دہشت گرد اور مجرم گروہ ہونے کے ناطے دیگر بین الاقوامی کریمینل گروپس سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہے۔ داعش سے مربوط گروہوں میں لاطینی امریکا کا گروہ "فارک”، افریقہ کا گروہ "بوکو حرام” اور بلکان کا گروہ "کے ایل اے” شامل ہیں۔ اس طرح داعش جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر کریمینل گروہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ داعش اور اس سے مربوط گروہ مختلف قسم کی غیر قانونی تجارت میں مصروف ہیں، جیسے اسلحہ کی اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ وغیرہ اور یہ گروہ ایکدوسرے کے تجربات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ داعش اس وقت عالمی اقتصاد کیلئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے اور عالمی برادری اس گروہ کے خاتمے کیلئے کمر باندھ چکی ہے۔