گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں کیا ہو رہا ہے؟
رپورٹ: صادق مہدوی
ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت امن عامہ کو برقرار رکھنے اور دہشتگردی کو ختم کرنے کے لئے مختلف سطح پر پالیسیاں بنتی نظر آرہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا اعلان ہوتے ہی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ قومی سلامتی کے لئے بنائے جانے والے اس اہم اور بڑے پلان کا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اسکی روح کیساتھ ہو رہا ہے یا محض دعوے اور اخبارات تک محدود ہے، اس کا اندازہ فوجی عدالت کے ذریعے تختہ دار پر لٹکائے جانے والے دہشتگردوں کی تعداد، دہشتگردوں کی پشت پناہ جماعتوں اور شخصیات کی سرگرمیوں، آپریشن کی تیزی سمیت دہشتگردانہ واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ گزرتے دنوں کے ساتھ دہشتگردوں کی بھیانک کارروائیاں نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی پر سوالیہ نشانیہ ہے۔
گذشتہ ماہ پاکستان کے دل لاہور میں ہونے والے واقعے اور اس سے قبل باچا خان یونیورسٹی کے دلسوز واقعات نے ثابت کر دیا کہ دہشتگردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے شاید مزید قربانیاں درکار ہوں۔ پاکستان کی عوام ان حالات میں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان یا تو ناکافی پلان ہے، جس کے ذریعے دہشتگردی کی عفریت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسا نہیں تو اس کو اس کی روح کیساتھ نافذ نہیں کیا گیا۔ اول الذکر بات کی طرف جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ہیت میں اتنی جان ضرور ہے کہ اس کے ذریعے دہشتگردی کے جن کو قابو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر عمل کس حد تک ہو رہا ہے، اس پلان کے اہداف کو دیکھ کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف مقامات پر ایک طرف آپریشن جاری ہے اور دوسری طرف دہشتگردی کے واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ البتہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دہشتگردی کی شرح میں کمی ضرور آئی ہے۔
گلگت بلتستان میں بھی حکمران جماعت کے علاوہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کیساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس پلان کی آڑ میں حکمران جماعت اپنے مخالفین کو ہراسان کرے گی اور بھرپور سیاسی مقاصد حاصل کرے گی۔ بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے اختیارات پاکستان آرمی کو دینے کا مطالبہ کیا، جبکہ قوم پرست جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے کالا قانون قرار دیا تھا۔ قوم پرست جماعتوں کے مطابق اسلام آباد کے نزدیک گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی اور قانونی حصہ نہیں ہے، لہٰذا وفاقی قوانین کا اطلاق بھی گلگت بلتستان میں غیر قانونی عمل ہے۔ انکے مطابق گلگت بلتستان میں دہشتگردی کا حل وفاق کی کم سے کم مداخلت اور اقوام متحدہ کے ذریعے خصوصی فورسز کی تعینات کے ذریعے جی بی کو دہشتگردی کے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ قاف، آل پاکستان مسلم لیگ، اسلامی تحریک پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء میڈیا میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن کی آڑ میں سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے اور یہ پلان دراصل نون لیگ ایکشن پلان ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر امجد ایڈووکیٹ اور سابق وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ یہاں تک کہہ گئے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے سربراہ کا تعلق کالعدم جماعتوں سے ہے اور انکے ہوتے ہوئے جی بی میں کسی داعش اور طالبان کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ امجد ایڈووکیٹ کے بیان کو اگر سیاسی بیان بھی کہا جائے تو سابق وزیراعلٰی کے بیان کو آسانی سے نظرانداز نہیں جاسکتا، کیونکہ تمام خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر گذشتہ پانچ سال ان کی نظر رہی ہے اور بغیر کسی ثبوت کے اتنا بڑا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کو بر سر اقتدار آئے تقریباً ایک سال ہونے والا ہے، اس ایک سال میں انہوں نے دہشتگردی کو ختم کرنے کے کیا اقدامات کئے، اس پر غیر جانبداری کیساتھ نظر کریں تو نہ صرف مایوسی ہوگی بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر اٹھنے والے اعتراضات بھی بے جا نہیں لگتے۔ اس عرصے میں سربراہ حکومت نے کئی بار دیامر کے پہاڑوں پر چھپے ہوئے دہشتگردوں کو ہتھیار ڈالنے کی گزارش کی اور بار بار انکے بیانات بھی آتے رہے کہ دیامر میں داعش اور طالبان روپوش ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود آپریشن نہ کرنا عجیب منطق ہے۔ تین ماہ قبل گلگت بلتستان میں دہشتگردی کا ایک انوکھا اور بڑا واقعہ پیش آیا، جس میں پاکستان آرمی (ایس سی او) کے تین انجینئرز کو اغوا کر لیا گیا۔ مغویوں کو ڈیڑھ ماہ کے بعد خطیر رقم کے عوض رہا کر دیا گیا۔
اس رہائی کے بعد صوبائی حکومت کے سربراہ نے اسے اپنی بہترین حکمت عملی اور کامیاب مذاکرات کا نتیجہ قرار دیا اور پوری قوم کو مبارکبادی بھی دی۔ اس مذاکرات کے دوران نیشنل ایکشن پلان پر عمل کس طرح ہوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے گلگت بلتستان کی حکومت نے اسی سال متعدد مذہبی و سیاسی شخصیات کے خلاف انسداد دہشتگردی کے دفعات کے ذریعے مقدمات بھی قائم کئے۔ ان میں سے کئی ملزمان گرفتار بھی کئے گئے۔ یمن میں پاکستانی فوج نہ بھیجنے کا مطالبہ کرنے اور یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف آئی ایس او اور ایم ڈبلیو ایم نے ریلی نکالی تو شیخ نیئر
عباس مصطفوی اور آئی ایس او کے صدر راحت حسین سمیت آٹھ رہنماوں پر مقدمات قائم کئے، جو اب بھی جاری ہے۔ اسکے علاوہ قراقرم یونیورسٹی گلگت میں یوم حسین منانے کی پاداش میں بھی درجنوں شیعہ طلباء کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت پرچے کاٹے گئے۔
گلگت بلتستان حکومت کے نیشنل ایکشن پلان کی بلی ابھی مکمل تھیلے سے باہر نہیں آئی۔ قوی امکان ہے کہ بہت جلد یہ بلی تھیلے سے باہر آجائے گی۔ جی بی میں اس وقت عوام خطے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے، اکنامک کوریڈور میں جی بی کو حصہ دلانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد وفاقی حکومت کے لئے ناپسندیدہ فعل ہے۔ وفاقی حکومت کبھی نہیں چاہتی کہ جی بی پاکستان کا آئینی حصہ بنے اور اکنامک کوریڈور میں اسے حصہ ملے۔ ایسا ہونے کی صورت میں جی بی کی حیثیت کالونی کی سی ہے، وہ ختم ہوجائے گی اور نوکر شاہی کو اس خطے کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور بلا احتساب استعمال کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ اس کے لئے وفاقی اشاروں کے تحت صوبائی حکومت نیشنل ایکشن پلان میں مزید تیزی لا رہی ہے اور اسکا رخ دہشتگردوں کی بجائے حقوق مانگنے والے عوام اور شخصیات کی طرف موڑا جا رہا ہے۔
نہایت اہم ذرائع نے یہ سنسنی خیز انکشاف کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ان افراد کے خلاف بہت جلد کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں اور وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ فورتھ شیڈول میں اکثر شامل وہ شخصیات جو سرے سے دہشتگردی کی فکر کے سخت ترین مخالف ہیں۔ صوبائی حکومت کے مخالف مذہبی رہنماوں کے علاوہ عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے والے افراد بھی فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ فورتھ شیڈول میں گلگت کے معروف عالم دین علامہ راحت حسین الحسینی، مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء شیخ نیئر عباس مصطفوی کے علاوہ تحریک اسلامی کے رہنماوں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ اور نائب خطیب اہلسنت والجماعت مولانا سلطان رئیس، بابا جان کامریڈ، احسان ایڈووکیٹ سمیت ڈیڑھ سو اہم شخصیات شامل ہیں۔
گلگت کے علاوہ دیامر، ہنزہ نگر اور بلتستان سے بھی عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی شخصیات کو فورتھ شیڈول میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر پر اشتعال انگیز ریاست مخالف تقاریر کرنے کے الزامات بھی ہیں۔ فورتھ شیڈول میں شامل تمام شخصیات کے ناموں کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے، جو کہ آہستہ آہستہ حکمت عملی کے مطابق منظر عام پر لانے کا امکان ہے۔ گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول کے مطابق کارروائی کرنے کے سلسلے میں پاکستان آرمی اور صوبائی حکومت میں اختلافات بھی پائے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی اس حق میں نہیں کہ اس حساس خطے میں ان تمام محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے، جو وفاقی حکومت کی خواہشات کے برخلاف عوامی حقوق بالخصوص آئینی حقوق اور اکنامک کوریڈور میں حصہ لینے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
دوسری جانب ان تمام جماعتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں حقوق ملنے کو مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی حکومت اپنی سیاسی موت سے تعبیر کرتی ہے۔ انکی کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل تمام مخالف جماعتوں کا گھیرا تنگ کریں اور عوامی خواہشات کی بجائے وفاقی حکومت کی خواہشات اس طرح پوری ہوں کہ انکو سیاسی نقصان بھی نہ پہنچے اور وفاق کی خوشنودی بھی شامل حال رہے۔ ان حالات میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت بدترین سیاسی فشار میں ہے۔ وفاقی حکمرانوں کو خوش کرنے کی صورت میں عوام میں نہ صرف مقبولیت کھو بیٹھے گی، بلکہ انکا حشر بھی سابقہ صوبائی حکومت کی طرح ہوسکتا ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ صرف تین روز کی طوفانی بارشوں نے صوبائی حکومت کی گڈ گورننس کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے اور ثابت ہوگیا کہ صوبائی حکومت بحرانوں پر قابو پانے میں مکمل طور ناکام ہوگئی ہے۔