مضامین

تکفیری دہشت گردی کے فروغ میں ترکی کا کردار

تحریر: مائیکل روبن

18 مارچ کو یورپی اور ترک سفارتکاروں نے ایک جامع معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت خطے میں جاری دہشت گردی سے متاثرہ مہاجرین کے مسئلے پر اہم فیصلے کئے گئے۔ یہ مہاجرین عراق، شام اور مشرق وسطی کے دیگر جنگ زدہ علاقوں سے ترکی کے راستے یورپی ممالک کی طرف امڈ آئے ہیں۔ مذکورہ بالا معاہدے کی رو سے یہ طے پایا ہے کہ یورپی ممالک سے واپس ترکی لوٹائے جانے والے ہر غیرقانونی مہاجر کے بدلے ایک ترک شہری کو یورپ میں قانونی طور پر مقیم ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ مزید برآں، ترکی اور یورپی ممالک اس بات پر بھی متفق ہو گئے ہیں کہ یورپی یونین سے ترکی کے الحاق کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع کر دی جائے۔ اسی طرح یورپی سفارتکاروں نے ترکی سے وعدہ کیا ہے کہ اس کے شہریوں کو بغیر ویزا کے شینگن سفر کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس معاہدے کے دو دن بعد داعش سے وابستہ ایک ترک شہری نے استنبول کی استقلال اسٹریٹ پر خودکش بم دھماکہ انجام دیا۔ یہ علاقہ استنبول کے بڑے تجارتی اور سیاحتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ چند دن بعد برسلز میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں نے کئی خودکش بم دھماکے کئے جس میں دسیوں افراد ہلاک ہو گئے۔ داعش نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ "سرزمین کفر” میں جن اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں برسلز میں انجام پانے والے یہ خودکش دھماکے ان کے مقابلے میں سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں۔

ترکی اور ترک صدر رجب طیب اردگان یورپ کو درپیش دہشت گردی کے خطرات کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ احمد داود اوگلو نے برسلز میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ اقدامات کے بعد یورپی حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: "یورپ کیلئے اپنی علاقائی سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ترکی سے بڑھ کر کوئی اتحادی نہیں۔ انہیں حقائق کو دیکھنا چاہئے اور صحیح رویہ اختیار کرنا چاہئے”۔ وہ حقیقت جسے داود اوگلو نے جان بوجھ کر نظرانداز کیا دنیا بھر میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے پھیلاو میں ان کے ملک ترکی کا کردار ہے۔ ترک حکومت کو مغربی حکام کو دھوکہ دینے میں خاص مہارت حاصل ہے۔ رجب طیب اردگان یورپی اور امریکی حکام کے ساتھ اجلاس میں جمہوریت کی اہمیت اور مغرب سے انقرہ کے تعاون کا دم بھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ: "سیکولرازم تمام اعتقادات اور مذاہب کا محافظ ہے”۔ لیکن اپنے ترک مخاطبین سے کسی اور انداز میں بات کرتے ہیں۔ رجب طیب اردگان جب استنبول کے میئر تھے خود کو "امام استنبول” کہلواتے تھے اور کہتے تھے: "میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کا بندہ اور شریعت کا پیروکار ہوں”۔ ان کی یہ بات مشہور ہے کہ: "جمہوریت ایک بس کی مانند ہے۔ جب بھی آپ اپنے مطلوبہ اسٹاپ پر پہنچ جائیں تو اس سے نیچے اتر آئیں”۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران انہوں نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی ہے کہ ان کا مقصد ایک مذہبی نسل کی تربیت کرنا ہے۔ یہ مذہبی نسل شام اور عراق میں جاری بدامنی کی آگ میں کود رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے 100 ممالک سے آئے 30 ہزار سے زائد جنگجو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے ملحق ہو چکے ہیں اور اس گروہ کیلئے سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ان جنگجووں کا بڑا حصہ یعنی تقریبا 90 فیصد ترکی کے ذریعے داعش سے ملحق ہوا ہے۔ انقرہ کی جانب سے ویزا دینے کی پالیسی نے بھی داعش کی بہت زیادہ مدد کی ہے۔

دوسری طرف عراق اور شام میں داعش سے ملحق ہونے والے غیرملکی جنگجووں میں ایسے ممالک کے شہریوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے جنہیں ترکی سفر کرنے کیلئے ویزا لینے کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پر مراکش اور تیونس کے شہری ترکی جانے کیلئے ویزا لینے کے پابند نہیں لہذا اس وقت عراق اور شام میں داعش کی صفوں میں شامل غیرملکی دہشت گردوں میں کئی ہزار مراکشی اور تیونسی شہری ہیں جبکہ لیبیا اور الجزائر کے شہریوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر رجب طیب اردگان مراکش، تیونس، لبنان، اردن، روس، برطانیہ اور آسٹریلیا سے آنے والے 40 سال سے کم عمر کے شہریوں کیلئے ترکی کا ویزا لازمی قرار دے دیتے تو داعش سے ملحق ہونے والے غیرملکی دہشت گردوں کی تعداد نہ ہونے کے قریب ہوتی۔ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر مستقل طور پر ترکی کی سرحد سے آمدورفت میں مصروف ہیں۔ وہ نہ صرف علاج معالجے کیلئے ترکی کی سرحد پار کرتے رہتے ہیں بلکہ تفریح اور تھکاوٹ دور کرنے کیلئے بھی ترکی آتے جاتے رہتے ہیں۔ استنبول میں بعض تاجر کھلم کھلا داعش کے نام پر تجارت کرنے میں مصروف ہیں اور یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی تجارت سے حاصل ہونے والا نفع عراق اور شام میں سرگرم داعش دہشت گرد عناصر کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خام تیل کی اسمگلنگ کرنے والے اسمگلرز داعش سے اسمگل شدہ تیل خرید کر بازار تک پہنچاتے ہیں۔ وہ اس کام کیلئے مقامی حکومتی اہلکاروں اور حکمفرما عدالت و ترقی پارٹی کے لیڈران کو رشوت دیتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے شدت پسند اسلامی گروہوں کی حمایت اور مدد کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ رجب طیب اردگان نے اپنے 13 سالہ دورہ اقتدار میں ترکی کو مغربی طرز کے جمہوری نظام سے تبدیل کر کے بحیرہ روم میں ایک دوسرا پاکستان بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی انٹیلی جنس ادارے کی فاش ہونے والی خفیہ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ انقرہ شام میں سرگرم القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کی حمایت میں مصروف ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے ان افرا
د کی گرفتاری کا حکم دیا جنہوں نے ترک سپاہیوں کی جانب سے اسلحہ سے بھرے ٹرک شام میں سرگرم شدت پسندوں کو فراہم کرنے کی خبر فاش کی تھی۔ اسی طرح ترک صدر نے ان صحافیوں کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا جنہوں نے ایسی تصاویر شائع کیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ترکی کی سرحد سے فوجی سازوسامان داعش سے وابستہ دہشت گردوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ رجب طیب اردگان نے اس اخبار پر بھی پابندی لگا دی جس نے یہ تصاویر شائع کیں اور اس اخبار کے ایڈیٹر اور صحافیوں کو بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح بعض ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کی سرحد پر واقع شہر کوبانی پر قبضے کے دوران داعش کے مقابلے میں کرد فورسز کی شکست کی ایک بڑی وجہ ترک حکومت کی جانب سے داعش کی مدد تھی۔ رجب طیب اردگان نے کوبانی پر کرد فورسز کے حملے کے دوران بڑی تعداد میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ اس شہر پر کرد فورسز کا حملہ ناکام بنا سکیں۔ کوبانی کی آبادی کرد باشندوں پر مشتمل ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے شام اور عراق کے مہاجرین کے مسئلے کو شروع سے ہی ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھنے کی بجائے اپنی کمان میں موجود ایک تیر کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے اہلسنت مہاجرین کو اس شرط پر ترکی کی شہریت عطا کرنے کی پیشکش کی کہ وہ ایسے علاقوں میں مقیم ہوں جہاں علوی باشندوں کی اکثریت ہے۔ اگرچہ دنیا والے یزیدیوں کی نسل کشی پر داعش کو برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن ان میں سے وہ افراد جنہوں نے ترکی میں سیاسی پناہ حاصل کی دوبارہ ظلم کا شکار ہو گئے۔ اس بار ان پر حکمفرما عدالت و ترقی پارٹی سے وابستہ علاقائی میئرز نے ظلم کیا اور انہیں کسی قسم کی سہولیات دینے سے انکار کر دیا۔ یورپی حکام کی جانب سے ترک صدر رجب طیب اردگان کو یہ اختیار دیا جانا کہ وہ یورپ میں سیاسی پناہ کے طلبکار مہاجرین میں سے مطلوبہ افراد کا چناو کریں اور نیز ترک شہریوں کیلئے یورپ سفر کرنے کیلئے ویزا کی پابندی ختم کرنے کا اعلان اس بات کا باعث بنے گا کہ رجب طیب اردگان اپنے غلط رویے کو جاری رکھیں اور انہیں مغربی دنیا پر دباو ڈالنے کیلئے مزید ہتھکنڈے فراہم ہو جائیں گے۔ ترکی کا کوئی ہمسایہ ملک رجب طیب اردگان کی موجودہ پالیسیوں کو پسند نہیں کرتا۔ حال ہی میں اردن کے فرمانروا ملک عبداللہ دوم نے کانگریس کو بتایا: "حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد عناصر کو یورپ بھیجنا انقرہ کی پالیسیوں کا حصہ ہے اور ترکی اپنے لئے یہ ہتھکنڈہ محفوظ رکھے گا۔ یہ ہتھکنڈہ یورپی حکام کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ شدت پسندی ترکی کی پیداوار ہے”۔ واشنگٹن میں عبداللہ دوم کا پیغام برسلز، پیرس اور برلن میں سنا نہیں گیا۔ رجب طیب اردگان دہشت گردی کا ایک بڑا کارخانہ بنا رہے ہیں اور اس پیداوار کی فروخت کیلئے یورپی ممالک کا واحد شریک تصور کئے جاتے ہیں۔ اس امر کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button