مضامین

شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور قومی مفاد

تحریر: طاہر عبداللہ

چند دن پہلے پشاور کے علاقے حسن گڑھی میں قاری خالد کا آٹھ ماہ کا شیرخوار بیٹا حذیفہ چوہے کے کاٹنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوا۔ جس کے بعد پشاور اور اُس کے مضافات میں چوہوں کے کاٹنے کے چند اور واقعات بھی رونما ہوئے اور ابھی تک ہو رہے ہیں۔ اِن خونخوار اور آدم خور چوہوں کے کاٹنے کا تذکرہ صوبائی اسمبلی کی غلام گردشوں تک بھی جا پہنچا، جس کے بعد اِن کے خاتمے کا بیڑہ محکمہ بلدیات، محکمہ صحت اور ضلعی حکومت نے اُٹھا لیا۔ اِس مہم کو تیز اور کارآمد بنانے کیلئے ضلعی حکومت نے چوہوں کے خاتمے کیلئے عوام کو چوہوں کو مارنے پر 25 روپے سے لے کر 300 روپے فی چوہا دینے کا اعلان کیا۔ ضلعی ناظم محمد عاصم خان نے بتایا کہ یہ فیصلہ بڑے بڑے چوہوں کی بھرمار اور چوہوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافے کے بعد کیا گیا، تاکہ مل کر شہر کو اِن آدم خور چوہوں سے پاک کیا جاسکے۔ صوبائی حکومت کے ایک ادارے کی طرف سے چوہوں کے خاتمے کیلئے ایکِ خاص قسم کا زہر بھی تیار کیا گیا اور جن علاقوں میں چوہوں کی تعداد زیادہ تھی، وہاں ایک خاص قسم کا سپرے بھی کیا گیا، تاکہ اِن کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکے۔ تلف کئے گئے چوہوں کو جمع کرنے اور محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لئے "کولیکشن پوائنٹ” بھی بنائے جاچکے ہیں، ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ نے بھی شہر میں چوہوں کی بہتات سے متعلق ایک شہری کی رِٹ پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری صحت، پشاور ڈپٹی کمشنر سمیت متعلقہ سرکاری حکام سے جواب طلب کر لیا۔

یہ انسانی ہمدردی کا کام دیکھ کر ہر آدمی کو ایسے لگا کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنے شہریوں کی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے شب و روز کس حد تک کوشاں، سرگرمِ عمل اور کتنی مخلص ہے، لیکن دوسری طرف دیکھا تو آئے روز دو چار قیمتی انسان قومی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پچھلے ماہ کبھی سید رضی الحسن شاہ ایڈووکیٹ کی شکل میں ڈی آئی خان کے بھرے بازار میں اِنصاف کا خون کرکے دو سے نو برس کی عمر کے چار بچوں کو یتیمی کے گہرے کنوے میں دکھیل دیا جاتا ہے، لیکن کسی کچہری اور عدالت کے معمول کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وکیل کے اِس سفاکانہ قتل کے خلاف انصاف و قانون کی کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لیتی نظر آتی ہے۔ کبھی پروفیسر عابد رضا کی شکل میں پشاور میں دن دیہاڑے علم کے روشن مینار کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، لیکن علم و آگہی کے تمام باشعور ادارے کوئی ریلی یا احتجاجی جلوس نکالتے نظر نہیں آتے اور نہ ہی طلباء کی طرف سے دہشت گردوں کی گرفتاری تک کلاسز کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ کبھی زندگیاں تقسیم کرنے والی ڈاکٹر زینب کی مع والد (سسر) پشاور میں زندگی کا چراغ بجھا دیا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹرز کی کوئی تنظیم سراپا احتجاج نہیں بنتی اور نہ ہی کوئی ہسپتال یا کلینک اِس سوگ میں بند کیا جاتا ہے۔

کل ایک بار پھر سید عاطف ایڈووکیٹ اور سید علی مرتجز ایڈووکیٹ کی شکل میں ڈیرہ اسمعیل خان میں انصاف کا وجود چھلنی کر دیا جاتا ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت اب بھی تبدیلی آچکی ہے، کے نعرے لگا رہی ہے۔ کل کے دن ہی دو گورنمنٹ ماہرین تعلیم اختر عباس اور مختیار حسین گشکوری کی، ڈیرہ اسمعیل خان میں علم کی روشنی تقسیم کرنے کی پاداش میں، زندگی کے روشن چراغوں کی لو کو مسل دیا گیا، لیکن وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آپس میں قومی خزانے کے بٹوارے کرنے اور آف شور کمپنیوں کے سیکنڈل پہ سمجھوتہ کرنے میں مصروف ہیں —- دہشت گرد اور آدم خور انسان معاشرے کے انمول اور قیمتی اثاثے کو سب کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا دیتے ہیں، لیکن یہاں بلدیاتی حکومت سے لیکر وفاقی حکومت تک کوئی بھی سنجیدہ ایکشن کرتے نظر نہیں آتا۔ نہ تو بلدیاتی حکومت اور کنٹونمنٹ بورڈ اِن انسان دشمن بھیڑیوں کو مارنے کے انعام کا اعلان کرتا ہے اور نہ ہی ضلعی حکومت اِن انسان نما بھیڑیوں کے خلاف کوئی زہریلی، موثر اور جامع حکمت عملی کا اعلان کرتی ہے۔ نہ تو صوبائی عمران حکومت اِس قتل عام پر کسی دھرنے کا اعلان کرتی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت متاثرین کی دل جوئی کیلئے کسی جلسے کا اہتمام کرتی ہے۔

یہ آدم خور دہشت گرد دِن دیہاڑے خاص مکتبہ فکر کے اُن بیش بہا قیمتی انسانوں کو اپنی سفاکیت اور بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں، جو ملک و قوم کی خدمت میں شب و روز مصروف بہ عمل ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ نسل کشی اور کراچی میں شیعہ اکابرین کے قتل عام کے بعد اب پشاور اور ڈیرہ اسمعیل خان میں شیعہ طبقہء فکر روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے، لیکن نہ تو وفاقی حکومت ٹس سے مس ہوتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کے کانوں پر کوئی جوں رینگتی ہے۔ وہ صوبائی حکومت جو پاکستان بھر میں اپنے نام نہاد صوبائی نظامِِ حکومت کو نافذ کرنے کیلئے کئی ماہ تک اسلام آباد کی سڑکوں پر تماشہ لگائے رکھتی ہے، اُسے اتنی توفیق نصیب نہیں ہوتی کہ شیعہ مسلک کے لوگوں کی جس انداز میں ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے، اُس کے تدارک اور روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس اور مثبت حکمت عملی اپنائی جائے۔ حیف ہے ایسے بے حس صوبائی اور وفاقی حکمرانوں پر جو اِس عوامی مینڈیٹ کو تو اپنے ہر جلسے میں بیان کرتے ہیں، جو اُنہوں نے پاکستانی قوم سے حاصل کیا، لیکن پاکستانی غیور قوم کی آئے روز ٹارگٹ کلنگ سے نہ صرف لاتعلق اور بے خبر ہیں، بلکہ اُن پر قومی سرمائے کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کے
سنگین الزامات بھی ہیں۔

پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کرنے کی دعوے دار مذہبی جماعتیں بھی اِن خونی وارداتوں کی رکاوٹ میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔ ملی یکجہتی کونسل میں شامل اکثر دیوبند اور وہابی جماعتوں کا ووٹ بنک اِنہیں پشتون علاقوں سے ہے۔ اِن جماعتوں کے قائدین کے لب مبارک سے بھی کبھی کوئی حقیقی مذمتی بیان سامنے نہیں آتا اور اگر سیاسی بیان آبھی جاتا ہے تو اِِس شکل میں کہ یہ کام کسی مسلمان اور پاکستانی کا نہیں ہوسکتا۔ فرقہ واریت کے خاتمے کادعویٰ کرنے والی تیس کے قریب مذہبی جماعتیں آج تک اِس شیعہ قتل عام کی روک تھام کے بارے میں کوئی موثر پالیسی نہیں بنا سکی ہیں اور نہ ہی اِس قتل و غارت گری کے آگے کوئی مضبوط بند باندھ سکی ہیں، حالانکہ مذہبی جماعتوں کے نمائندگان صوبائی اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی موجود ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسا ادارہ بھی اِنہیں کے پاس ہے، لیکن اِن تمام تروسائل کے باوجود اِس فرقہ وارانہ قتلِ عام پر کوئی مضبوط آواز بلند نہیں کی جاسکی۔

یہ کیسی ملی یکجہتی کونسل ہے جس میں 28 دینی جماعتوں کے سربراہان متفقہ طور پر فرقہ واریت کے خلاف 20 نکاتی اعلامیے اور ضابطے پر دستخط تو کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی اہل تشیع کے قیمتی افراد کا روزمرہ بنیادوں پر قتل عام جاری رہتا ہے۔ اِس دوہرے معیار پر سادہ لوح عوام کو بھی سوچنے، سمجھنے اور موثر ردعمل دینے کی ضرورت ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ مذہبی اکابرین سے بھی گزارش ہے کہ براہ مہربانی ایسے اتحادوں کو ذاتی نمود و نمائش اور سیاسی مفاد کیلئے استعمال نہ کیا جائے، بلکہ اِس دہشت گردی کے سیلاب کے آگے مخلصانہ طور پر مضبوط بند باندھا جائے، جس میں شیعہ قوم کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اہلکار اور پاک افواج کے ہزاروں جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ملک و قوم کی سلامتی کے لئے بنائے گئے بیسیوں ادارے شب و روز مصروف بہ عمل ہیں، لیکن بدقسمتی سے اِن کی آپس میں برائے نام کوآرڈی نیشن یا کہیں نہ کہیں پر سُقم کی وجہ سے ملک و قوم کا نہ صرف عظیم نقصان ہو رہا ہے، بلکہ یہی چیز ملک کی باشعور، پرامن اور محب وطن قوم کی نسل کشی کی ذمہ داری کا باعث بھی ہے، جسے فوری طور پر اور ہر حال میں جنگی بنیادوں پر بہتر کرنے کی اشدضرورت ہے۔

تشویش میں مبتلا اور مضطرب قوم کو کوئی ادارہ بھی مستقل بنیادوں پر اِس فرقہ وارانہ نفرت، تعصب اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن نظر نہیں آرہا۔ ضربِ عضب سے پہلے بھی اِس طرح کے کئی آپریشن کئے گئے، لیکن ان کے ثمرات خوفزدہ اور غمزدہ عوام کی جھولی میں ابھی تک مکمل طور پر نہیں پہنچ پائے، اگر پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے غمزدہ قوم اور متاثرین کو کچھ تسلی و تشفی ملنا شروع ہوتی بھی ہے تو دہشت گرد چند دنوں کے بعد درجنوں بے گناہ افراد کو تہہ تیغ کرکے اپنی دہشت ایک بار پھر ثبت کر دیتے ہیں، جس سے نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے دعووں کو شدید نقصان اور دھچکا پہنچتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ذمہ داران ایسی موثر اور جامع پالیسیاں مرتب کریں، جس سے دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کبھی بھی عملی جامہ نہ پہن سکیں اور یہ سب کچھ اس صورت ممکن ہوسکے گا، جب ادارہ جاتی باہمی رابطوں کو مضبوط کیا جائے گا۔

شیعہ قوم وہ غیور اور محب وطن قوم ہے، جو پاکستان کے بانیوں میں ہراول دستے کے طور پر نہ صرف شریکِ کار رہی بلکہ اِس کے مسلکی آباؤ اجداد کی دامے، دِرمے، سخنے اور قدمے کوششوں کی وجہ سے آج ایٹمی، مضبوط اور ناقابلِ شکست پاکستان کا سبزہلالی پرچم دُنیا کے نقشے پر پوری آب و تاب سے لہرا رہا ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ جو قوم اِس ملک کی بانی قوم کہلاتی ہے، نہ صرف وہ بلکہ خود پاکستان بھی اپنی تخلیق سے لے کر اب تک پاکستان کے ازلی دشمنوں کے قبضے اور نرغے میں ہے۔ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کی تخلیق اور پاکستان کا خواب دیکھنے والی ہستی ڈاکٹر علامہ اقبال اور اِس عظیم خواب کو شرمندہ ء تعبیر کرنے والے قائد محمد علی جناح کو کافر سمجھتے اور کہتے تھے، وہی تکفیری سوچ آج پاکستان کے مقتدر ایوانوں میں کسی نہ کسی شکل میں براجمان ہے اور اِسی سوچ نے پاکستان کے پراَمن گلی کوچوں میں نفرت کے تکفیری وائرس پھیلا کر امن و بھائی چارے اور اسلامی اُخوت و رواداری کا آہستہ آہستہ گلا گھونٹ دیا ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ پر سچ ہے کہ آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ بہت سے ممالک کو پاک فوج نے برسوں پر محیط بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتوں سے نکالا ہے اور اسی لئے کچھ ممالک اپنے ساتھ بہادری و جرات کی بے مثال پاکستانی باوقار فوج کا نام استعمال کرکے دوسرے ممالک کو ڈرانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مشرق وسطٰی کی جنگ میں ظاہری طور پر کودنے سے قومی تشویش میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے حالانکہ اسلامی دنیا میں اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے ایٹمی ملک کی حیثیت سے پاکستان کی طرف سے مصالحانہ کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ دوست ممالک کے زبردستی اصرار پر فرقہ وارانہ بنیاد پر بننے والے 34 ملکی سعودی اتحاد میں شامل ہونے سے بہتر ہوتا کہ پہلے ہم اپنی پاک سرزمین کو نجس دہشت گردوں سے مکمل پاک اور صاف کر لیتے، بہتر ہوتا کہ ہم پہلے اپنے ملک کے بیش بہا قیمتی اور انمول لوگ جن میں جج، وکلاء، سی ایس پی افسران، ڈاکٹرز، علماء، ذاکرین، دانشور، ادیب، شاعر، صحافی اور دیگر افراد کے قاتل سفاک دہشت گردوں سے کھل
کر نمٹ لیتے۔

بہتر ہوتا کہ ہم پہلے 50 ہزارسے زائد قومی شہداء کے لاکھوں غمزدہ لواحقین کو تسلی و تشفی دے لیتے، بہتر ہوتا کہ ہم آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کے بچوں کے ساتھ ساتھ تمام قومی شہداء کے لاکھوں بچوں کی حوصلہ افزائی کرلیتے، بہتر ہوتا کہ دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے محب وطن اور جانثار پاکستانی شہریوں کے ساتھ بھی اظہار یک جہتی کر لیتے۔ بہتر ہوتا کہ ہم پاکستان کی بانی قوم کے قاتل دہشت گردوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر بانی آباؤ اجداد کی ارواح کو خوش کر لیتے، بہتر ہوتا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ڈیرہ اسمعیل خان میں بیٹھ کر بھی اجلاس کرتے اور ہزاروں غمزدہ، دہشت زدہ یتیم شیعہ بچوں کے سر پر شفقت و شرافت کا ہاتھ رکھتے اور اُن بچوں کے شفیق والدین اور سہانے مستقبل کے قاتلوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کی بات اور تہیہ کر لیتے۔

ہرکوئی جانتا ہے کہ تین عشروں سے پاکستان کی سرزمین پر کرب و بلا بپا ہے۔ اِس موجودہ کربلا میں جنگ کا طریقہء کار مختلف ہے۔ کبھی بم، کبھی گولی اور کبھی خودکش حملے سے مکروہ اور گھناؤنے عزائم کی تکمیل کی جاتی ہے۔ شیعہ غیور قوم خاکِ شفا سے خمیر شدہ خون پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کی پر روزانہ کی بنیاد پر نچھاور کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نام نہاد قومی مفاد جو زیادہ تر شیعہ قوم کے افراد کی قربانی کا طلبگار ہے اور صرف شیعہ قوم کی مجلس و عزاداری کی بندش کا تقاضا کرتا ہے اور زائرینِ ایران و عراق و شام کی آمدورفت میں مشکلات کا باعث بنتا ہے، کب اِس قوم کے بنیادی انسانی اسلامی حقوق کو تسلیم کرے گا اور کب اُسے پاکستان کی باعزت اور معتبر قوم تسلیم کرکے پاکستان کے آئین و قانون کے بنیادی تقاضوں اور بانیءِ پاکستان کے زریں خطبات کی روشنی میں اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کا حق دے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button