کچھ لمحے ۔۔۔ مسجد جمکران میں
تحریر: ساجد علی گوندل
شام کو جب میں نماز کے لئے وضو کرکے اپنے محلے کی مسجد کی طرف چلا، تو گلی کوچوں میں رنگ برنگی روشنیوں، مشروبات اور چہل پہل کا ایک دلکش منظر دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح جب میں مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ آج مسجد میں بھی معمول سے زیادہ نمازی ہیں۔ خیر ہمارے مسجد پہنچتے ہی جماعت شروع ہوگئی اور نماز کے بعد نمازیوں کی مٹھائی اور آئس کریم وغیرہ سے خاطر مدارت کی گئی۔ میں نے بھی شیرینی لی اور مسجد جمکران کی طرف نکل پڑا۔ ویسے یاد رہے کہ شہرِ قم کی سڑکوں پر ہر وقت رونق رہتی ہے، مگر آج رات کچھ خاص ہی بات تھی۔ تمام گلیوں و سڑکوں پر کہیں مشروبات تو کہیں ایرانی چائے کا دور دورہ تھا، کہیں کیک تقسیم ہو رہے تھے تو کہیں ٹافیاں، کہیں ایرانی سوہان تو کہیں دیگر سویٹس چل رہیں تھیں۔
مسجد سے نکلتے ہی میں نے حرم حضرت فاطمہ ؑ المعروف معصومہ قم کی طرف چلنا شروع کیا اور ساتھ ہی ان تمام چیزوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔ حرم حضرت معصومہ ؑ کے قریب ہی واقع میدان مطہری پر پہنچا کہ جہاں سے مجھے جمکران کی سواری پکڑنی تھی۔ وہاں پہنچتے ہی حرم حضرت معصومہ ؑ کی طرف رخ کرکے پہلے معصومہؑ کو سلام کیا اور ساتھ ہی جمکران کی بس جو کہ بالکل آمادہ تھی، میں سوار ہوکر اپنی منزل کی طرف چلا۔ بس کی فضاء مسلسل دعائے تعجیل امام زمانہ ؑ و ذکرِ صلوات سے گونج رہی تھی۔ اسی بابرکت فضاء میں تقریباً 15 سے 20 منٹ تک ہم مسجد جمکران پہنچے۔
گاڑی سے اترتے ہی میری نظر بے ساختہ مسجد کے بلند و بالا میناروں پر پڑی، جو کہ بعینہ مسجد نبویؐ کا منظر پیش کر رہے تھے۔ چلتے چلتے مسجد میں داخل ہوئے کہ جہاں ہزاروں مرد و زن، بوڑھے اور چھوٹے چھوٹے بچے مسجد کے حسن کو مزید چار چاند لگائے ہوئے تھے۔ ہر بدھ کی شب کی طرح آج بھی مسجد میں دعائے توسل کا اہتمام کیا گیا تھا، مگر آج کے انتظامات تو خود آپ ہی اپنی مثال تھے اور اس سب کی وجہ گذشتہ روز یعنی 3 شعبان ولادت باسعادت محسن انسانیت حضرت امام حسینؑ اور موجودہ شب جشن میلاد ِ سرکار وفا حضرت ابو الفضل العباس ؑ تھا۔ مسجد پہنچ کر سب سے پہلے اعمال مسجد جمکران بجا لائے اور پھر کچھ ہی لمحات کے بعد تقریباً رات 10 بجے مسجد کے بغل میں واقع ایک بہت بڑا ہال کہ جسے شبستانِ کربلا کہا جاتا ہے، میں خاص اہتمام کے ساتھ دعائے توسل شروع ہوتے ہی مسجد کا گوشہ و کنار "یا وجیھا عنداللہ اشفعی لنا عند اللہ” کی نورانی صداؤں سے گونج اٹھا۔
تمام مرد و خواتین اپنی عاجزی و ناتوانی کا اظہار کرتے ہوئے آئمہ علیہ السلام کو خدا کی بارگاہ میں اپنی سعادت کا وسیلہ بنا رہے تھے اور ان کے وسیلے سے خدا سے اپنی حاجات طلب کر رہے تھے۔ جس میں پاکستان، ہندوستان، ایران، عراق، شام، عرب امارات، چین الغرض دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے افراد بغیر کسی تفریق کے اپنے خالق و مالک سے ہم کلام تھے۔ دعا پر گریہ و زاری نے پوری مسجد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ مسجد جمکران پیار و محبت، امن و آشتی کا گہوراہ بنی ہوئی تھی، جہاں جہالت، دہشت گردی، خوف و ڈر جیسی چیزوں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ گویا مسجد دین مبین اسلام کا مجسم نمونہ پیس کر رہی تھی اور یہ صدائیں تقریباً ایک گھنٹہ یا اس سے کچھ زیادہ، دور دور تک فضاؤں میں اپنا رس گھولتی رہیں۔ رات 11 بجے جیسے ہی دعا اختتام کو پہنچی تو آسمان سے رحمت خداوندی کی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کا ہجوم منتشر ہونا شروع ہوگیا اور ساتھ ہی ہم نے بھی اپنی منزل کا رخ کیا۔