لشکر امام خمینی کے علمبردار
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
یوم تاسیس کے موقع پر آئی ایس او کے موجودہ مرکزی صدر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ وہ جس تنظیم کے سربراہ ہیں، وہ فقط ایک طلبہ تنظیم نہیں بلکہ عالمی اسلامی تحریکوں میں سے ایک اسلامی تحریک ہے۔ تنظیم کی تاسیس ستر کی دہائی کے نصف میں ہوئی۔ ایک عشرے سے بھی کم عرصہ گذرا کہ پاکستان میں جس جگہ بھی شیعہ آباد تھے، وہاں تک آئی ایس او کا تنظیمی ڈھانچہ وسعت اختیار کر گیا۔ نوے کی دہائی کے آخر کی بات ہے، پنجاب کے دیہاتی علاقے میں واقع ہائی اسکول میں آئی ایس او کا محب یونٹ تشکیل دیا گیا تو میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، تب آئی ایس او کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہمارے قصبے میں تشریف لائے، مختصر سی تعداد میں اسکول کے بچے بھی تھے، ہمیں پہلی مرتبہ شہید کی زیارت کا شرف نصیب ہوا۔
آئی ایس او اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی لازم و ملزوم ہیں، شہید جب بھی تشریف لاتے، دعائے کمیل کی محفل میں دعا کی تلاوت کیساتھ مختصر درس ہوتا، طالب علموں کو اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کرتے، ملکی اور بین الاقوامی حالات کا ذکر کرتے اور اسی تناظر میں نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے، فکر کو جلا دیتے، درد بانٹتے، دلوں کو گرماتے۔ اس بات پر بہت زور دیتے کہ ذات کے دائرے میں بند ہو کر صرف اپنی زندگی کا سوچنا، کچھ کرنا، انسان کی شان کیخلاف ہے، بندے کو حیوانیت کے درجے تک لے جاتا ہے، انسان پست ہو جاتا ہے، عمدگی اس میں ہے کہ حاضر و موجود کو دین کے معیارات میں تولیں، ظاغوت کی نفی کریں، عالمی سطح پر امام خمینی نے جو تحریک برپا کی ہے، اس وجہ سے ہم میں سے ہر ایک پر حجت تمام ہوگئی ہے، ہمارے لئے یہ زمانہ ایسا ہے جیسے ہم امام معصوم علیہ السلام کی موجودگی میں زندہ ہوں، جب ہم نے امام خمینی کا دور دیکھ لیا ہے تو ہم پر حجت تمام ہوگئی ہے، اب ہم سے سوال ہوگا، ہم نے اس تحریک کا ساتھ کیوں نہیں دیا، اگر ہم کہیں گے کہ ہم تو طالب علم تھے، یا کم عمر تھے تو یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ آئی ایس او کے ذریعے سے ہم تک یہ پیغام پہنچ چکا ہے، اب اگر ہم اس سے گریز کریں گے تو اللہ تعالٰی، معصومین علہیم السلام اور شہداء کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔
سچی بات ہے کہ اسکول کے زمانے میں ہی شہید ڈاکتر محمد علی نقوی کی گفتگو سننے کا موقع ملا، یہ الفاظ دل میں تیر ہو جاتے تھے، نوجوان سردی، گرمی، دھوپ، چھاوں، بھوک، پیاس، شاید زندگی کی پروا بھی نہیں کرتے تھے، جس کے حصے میں جو چھوٹا بڑا کام آیا، سب نے اللہ تعالٰی کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کے طور پر انجام دیا۔ والدین، اساتذہ، بزرگ، امام مسجد، رشتہ دار، عزیز سب لوگ سمجھاتے کہ یہ غیر ضروری کام ہیں، یہ جذباتی لوگ ہیں، یہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں، ان سے دور رہیں، نوجوان ہنستے اور آگے بڑھ جاتے۔ ایک جملہ ہر چھوٹے بڑے طالب علم کو اچھی طرح سننے میں ملتا کہ آئی ایس او کا مقصد یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے شیعہ طلبہ جب تعلیم مکمل کرکے اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے جائیں تو وہ ایک پروفیشنل، آفیسر، وکیل اور بزنس مین بننے کیساتھ ساتھ اچھے مسلمان، مومن اور نظریاتی و انقلابی نوجوان بن کے نکلیں، کیونکہ ہمارے معاشرے، گھر، تعلیمی اداروں میں باقی تو سب کچھ سکھایا جاتا ہے، لیکن دین کا حقیقی تصور نہیں دیا جاتا۔
آج بھی جب آئی ایس او کی عمر چار عشروں سے تجاوز کرچکی ہے، وہ فکر سلامت ہے، تنظیم کے مرکزی صدر کا مذکورہ بیان اس حقیقت کا غماز ہے کہ آئی ایس او پاکستان، زمانے کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کر رہی ہے، نوجوان نسل کو مادیت زدہ اور مفاد پرستی کے گرداب میں غرق ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ آئی ایس او میں موجود یہ تصور کہ یہ تنظیم صرف طلبہ کا ایک گروہ نہیں، بہت بڑے ہدف اور منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ تعلیم انسان کا زیور ہے، لیکن ستر کی دہائی میں جدید ترین مضمون میں اعلٰی ترین ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر مصطفٰی چمران شہید کا لبنان میں کردار ہمیشہ آئی ایس او کے کارکنوں کے لئے زندہ اسوہ رہا ہے۔ تنظیم کے بانی خود ڈاکٹر تھے، اسوقت ڈاکٹر ہونا ایک پاکستانی نوجوان کے لئے خواب تھا، لیکن آئی ایس او کے خمیر میں دین کے مطابق موت کو زندگی پر ترجیح دینا ٹھہرا۔ جب ڈاکٹر بننا دشوار تھا، میڈیکل کالجز نہ ہونے کے برابر تھے، آئی ایس او کے بانی راہ خدا میں جدوجہد کا راستہ دکھاتے، شہادت کی راہ سجھاتے رہے، دوسروں کی خاطر جینا سکھاتے رہے۔
جب سے ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، اس وقت سے آج تک لگاتار کتنے لوگ ڈاکٹر بن کر نکلے ہیں، ان میں سے کتنے لوگ ہیں، جنہوں نے یہ راستہ اختیار کیا، جو امام خمینی کا راستہ ہے، شہید عارف حسین حسینی کا راستہ ہے، آئی ایس او کا راستہ ہے۔ اگر فرض کریں کہ کئی ہزار ایسے ڈاکٹر ہیں، جو اس وقت سے اب تک میڈیکل کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن اگر وہ شہید کے راستے پر نہیں ہیں تو ان خدمات کی کیا قیمت رہ جاتی ہے، کیا ایک غیر مسلم سے میڈیکل خدمات حاصل نہیں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف کیا ایک انقلابی، نظریاتی، فکری رہنما میسر آسکتا ہے۔ ہرگز نہیں، یہ صرف آئی ایس او کا خاصا ہے، جو تعلیمی اداروں میں خط ولایت، خط امام خمینی، خط شہید حسینی، خط ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی امین ہے۔ میرا خیال ہے کہ آئی ایس او کے جتنے سابق م
رکزی صدور بقید حیات ہیں، سب یہی سوچتے ہیں کہ جس تنظیم کے صدر رہے ہیں، وہ فقط طلبہ تنظیم نہیں بلکہ عالمی اسلامی تحریکوں میں سے ایک تحریک ہے، اور تمام سابق مرکزی صدور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے جانشین ہیں، یہ بات یقینی ہے کہ وہ اسی راستے پر قائم ہیں، اس پہ چلتے ہوئے اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کریں گے، کارکن ان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں لشکر امام خمینی کے علمبردار زندہ باد، آئی ایس او پائندہ باد۔