دھرنے اور بھوک ہڑتال کی شرعی حیثیت
تحریر: ساجد علی مطہری
ایم ڈبلیو ایم قم میڈیا سیل
عقل، اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے اچھائی اور برائی میں تمییز اور انسانی فطرت میں موجود مختلف غریزوں اور قوا کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ ان انسانی غریزوں اور قوا میں قوہ غضبیہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اگر قوہ غضبیہ میں افراط ہو جائے تو شخص فرعون، نمرود، یزید، حجاج، ہلاکو خان اور ہٹلر بن جاتا ہے اور اگر اس میں تفریط ہو جائے تو انسان مردہ لاش بن جاتا ہے، جو ہر طرح کے مظالم ڈھائے جانے پر بھی ٹہس سے مس نہیں ہوتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان کو افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے معتدل زندگی گزارنی چاہیے، نہ اسے دوسروں پر ظلم کرنا چاہیے اور نہ ہی دوسروں کا ظلم سہنا چاہیے، بلکہ اگر دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مظلوم کا ساتھ دے کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیںً” ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو۔
عرصہ دراز سے مملکت پاکستان میں ایک منظم منصوبے کے تحت شیعوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان سالوں میں کتنے سہاگ اجڑ چکے ہیں۔ کتنے بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ کتنی بہنوں اور ماؤں کے راج دُلارے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ کوئی پرساں حال نہیں ہے۔ دن رات دلدوز مناظر دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھرا گئی ہیں، انسانی ضمیر بے حس ہوچکا ہے۔ ایسے ایسے خونی منظر سامنے آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، مگر ڈر کے مارے زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور زبانوں پر تالے لگ چکے ہیں، یہاں تک کہ مذمتی بیان بھی نہیں دیئے جاتے۔ ان حالات میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں ان مظالم پر چین نہیں آتا، ان کی نیندیں اڑ گئیں ہیں، وہ ذاتی آسائشوں کو ملحوظِ خاطر لائے بغیر میدان میں نکلے ہیں، وہ شیعہ قوم کی آواز بلند کرتے ہوئے کئی دنوں سے سخت گرمی اور بھوک برداشت کر رہے ہیں، یقیناً ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے، کیونکہ اس دھرنے اور بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان چند دنوں میں ہی شیعہ قوم کی آواز نہ صرف پاکستان کے ایوانوں تک بلکہ دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے۔ حق اور باطل کی یہ جنگ تو ہمیشہ جاری رہے گی، لیکن کم از کم اس اقدام سے ملک کے بے ضمیر حکمرانوں کو بخوبی معلوم ہوچکا ہے کہ اتنی آسانی سے اہل تشیع کے خون کا سودا نہیں کیا جاسکتا۔
اتنی عظیم کامیابی کے باوجود دھرنے اور بھوک ہڑتال کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بحث کرنا تحصیل حاصل ہے۔ تاہم شرعی حوالے سے اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں دھرنے اور بھوک ہڑتال کے بعض پہلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ اللہ تعالٰی کی راہ میں بھوک، پیاس اور مشقت برداشت کرنے والوں کو اللہ تعالٰی نے احسان اور نیکی کرنے والوں میں سے شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ کی راہ میں مشقت اور سختیاں سہنے والوں کے لئے اجر عظیم ہے، ساتھ ہی ساتھ اہل مدینہ کو توبیخ کر رہا ہے کہ کیوں انہوں نے فرمانِ رسول (ص) سے سرپیچی کی ہے اور ایسے اقدمات اٹھانے سے اجتناب کرتے ہیں، جن سے کافروں کو غصہ آئے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:َ” ،مدینہ والوں اور ان کے آس پاس دیہات کے رہنے والوں کو یہ مناسب نہیں تھا کہ اللہ کے رسول سے پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو اس کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں، یہ اس لئے ہے کہ انہیں اللہ کی راہ میں پیاس، تکلیف اور بھوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور کسی ایسی جگہ قدم نہیں رکھتے، جس سے کافروں کو غصہ آئے اور انہیں دشمنوں سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، مگر یہ ان کے لئے عمل صالح لکھا جاتا ہے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
2۔ اگر امام حسین (ع) کے تاریخی قیام کا جائزہ لیا جائے تو امام حسین (ع) نے اپنے قیام کا آغاز مدینہ منورہ سے کیا۔ آپ شعبان المعظم کے ابتداء میں مکہ پہنچے اور مکہ میں چار مہینے قیام کے دوران مسلمانوں کو اپنے مشن سے آگاہ کرتے رہے اور جب حجاج حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے مکہ کا رخ کرنے لگے تو امام حسین (ع) نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور کوفہ روانہ ہوئے۔ اس اقدام سے امام عالی مقام کا مقصد یہ تھا کہ میرے قیام سے سب مسلمانوں کو علم ہو جائے اور انکے ذہنوں میں سوال پیدا ہو جائے کہ بھلا کیوں فرزند رسول (ص) حج کے ایام میں خانہ کعبہ چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ یوں سارے لوگ امام حسین (ع) کے قیام کے مقصد سے آگاہ ہوتے گئے۔ بالکل اسی طرح اپنے مولا و آقا کی سیرت پر چلتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے بھی شیعہ نسل کشی اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا ہے اور بھوک ہڑتال کی ہے، یوں اس اقدام سے انکی آواز پورے پاکستان میں گونج اٹھی ہے اور جیسا کہ بی بی زینب (س) نے شہداء کربلا کی شہادتوں اور مظلومیت کو چھپنے نہیں دیا، بی بی (س) کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قائدِ وحدت نے بھی شہداء پاکستان کی شہادتوں اور مظلومیت کو اجاگر کیا اور آج انکی کوششوں سے اہل تشیع کو ہی پورے پاکستان کے شہیدوں کا وارث سمجھا جاتا ہے۔
3۔ اگر حالیہ بھوک ہڑتال کے فوائد اور نقصانات کا موازنہ کیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر آئے دن شیعہ ڈاکٹرز، انجنئیرز، اسکالرز، سماجی اور سیاسی شخصیات کو چُن چُن کر قتل کیا جاتا ہے اور اتنی شہادتوں اور قربانیوں کے باوجود خوابِ غفلت میں سوئی شیعہ قوم اپنے شہیدوں کے خون سے فائدہ نہیں اٹھاتی، لیکن اس کے برعکس اس دھرنے اور بھوک ہڑتال میں صرف ر
اجہ ناصر عباس اور انکے کارکنوں نے گرمی اور بھوک کی سختی برداشت کی ہے، لیکن شیعہ قوم کے لئے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مکاتب فکر اور مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے میں شامل ہوئے، جس سے باہمی رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔
4۔ حالیہ دھرنے اور بھوک ہڑتال کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ "میں عوام کو سٹرکوں پر نکال کر انہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا، میں شیعہ قوم کی خاطر خود ہی بھوک اور گرمی برداشت کر رہا ہوں” ایثار اور فداکاری کا یہ درس انہوں نے اہل بیت (ع) کی پاک سیرت سے لیا ہے، جب اہل بیت (ع) نے تین دن روزہ رکھنے کے باوجود اپنے حصہ کی روٹیاں یتیم، مسکین اور قیدی کو دے دیں تو آیت نازل ہوئی” اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے، فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں، نہ شکرگزاری کے طلبگار۔
دھرنے اور بھوک ہڑتال کے حوالے سے علماء کی سیرت
اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا اور میدان میں آنا عقل سلیم کا تقاضا ہے، تاریخ میں ہمیں علماء کی سیرت میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جب مختلف مقامات پر علماء میدان آئے، دھرنے دیئے اور بھوک ہڑتالیں کیں۔ ذیل میں بطور اختصار چند تاریخی دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
1۔ رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کی بھوک ہڑتال
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے فرزند ارجمند علامہ سید جواد خامنہ ای رہبر انقلاب کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہم نے کئی مرتبہ جیل میں بھوک ہڑتال کی تھی۔
2۔ امام موسٰی صدر کی بھوک ہڑتال
ڈاکٹر شہید چمران نقل کرتے ہیں کہ: امام موسٰی صدر نے لبنان میں شیعوں کے قتل عام کے خلاف 26 جون 1975ء کو بھوک ہڑتال کا اعلان کیا، امام موسٰی صدر کے اس اقدام کی حمایت میں جنوبی لبنان اور بعلبک سے ہزاروں کی تعداد میں شیعہ بیروت کا رخ کرنے لگے، تو اس کے ردعمل میں لبنان کی برسر اقتدار حکومت نے پٹرول پمپوں میں تیل سپلائی کرنا بند کر دیا، تاکہ لوگ بیروت نہ پہنچ سکیں اور جب عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بیروت کی طرف بڑھنے لگا تو کرفیو نافذ کیا گیا اور اعلان ہوا کہ جو بھی گھر سے باہر نکلے گا، اس کو گولی مار دی جائے گی۔ ان سخت حالات میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائیوں نے بھی امام موسٰی صدر کا ساتھ دیا اور بھوک ہڑتال میں شریک ہوئے۔ بھوک ہڑتال کے چوتھے روز لبنان کے وزیراعظم، وزیر خارجہ، شام کے وزیر خارجہ، تحریک مقاومت کے سربراہ یاسر عرفات امام موسٰی صدر سے ملنے آئے اور یوں امام موسٰی صدر کے سارے مطالبات ماننے کی شرط پر بھوک ہڑتال ختم ہوئی۔
3۔ شہید نواب صفوی کی بھوک ہڑتال
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے تقریباً 25 سال پہلے فدائیان اسلام کے لیڈر علامہ سید مجتبٰی نواب صفوی کو حجاب پر پابندی اور شراب نوشی کے خلاف تقریر کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے جیل میں جانے کے بعد فدائیان اسلام کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری عمل میں لائی گئیں، تو نواب صفوی نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری اور شاہ کے مظالم کے خلاف جیل میں بھوک ہڑتال شروع کی، چند دنوں کے بعد نواب صفوی کی حالت بگڑ گئی، لیکن آخرکار پانچ دنوں کی بھوک ہڑتال کے بعد ان کے ساتھیوں کو رہا کیا گیا اور ان کے مطالبات منطور ہوئے۔ شہید نواب صفوی ایک جوان عالم دین تھے، لیکن انکی انقلابی فکر اتنی عمیق تھی کہ انکے متعلق رہبر معظم فرماتے ہیں” مجھ میں انقلاب کی ابتدائی چنگاری نواب صفوی کے ذریعے سے پیدا ہوئی۔
4۔ رہبر معظم، شہید بہشتی اور شہید مطہری کا تہران یونیورسٹی میں دھرنا
انقلاب اسلامی کی کامیابی سے تقریباً دو ہفتہ پہلے رہبر معظم، شہید بہشتی (رہ) اور شہید مطہری (رہ) نے اپنے ساتھیوں سمیت شاہنشاہی نظام کے خلاف تہران یونیورسٹی کی مسجد میں دھرنا دیا اور وہاں سے مشترکہ بیان جاری کیا کہ امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی تک ہمارا احتجاج اور دھرنا جاری رہے گا۔ وہاں سے "تحصن” (دھرنا) نام سے مجلہ شائع کیا گیا، یوں رفتہ رفتہ انکی آواز پورے ملک میں پھیل گئی، ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے، تہران یونیورسٹی میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، آخرکار انکی کاوشیں رنگ لائیں اور دو ہفتوں کے بعد انقلاب اسلامی ایران کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
خوشی کا زہر کسی شیشۂ الم میں رہا
میرا شعور سدا وہم بیش و کم میں رہا
کسی نے چھین لی بیوہ کے سر سے چھاؤں مگر
فقیہ شہر عمامے کے پیچ و خم میں رہا
* دشمن ہمیں خوف زدہ اور معاشرے میں تنہا کرنا چاہتا ہے، ہم نے اس منصوبے کو بهی شکست دی ہے۔ آج پاکستان کے تمام طبقات ہمارے ساتھ یکجہتی کا اعلان کر رہے ہیں، سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرکے آتے ہیں، ان میں سنی بھی ہیں، سکھ بھی، عیسائی اور ہندو بھی۔ سیاسی اور غیر سیاسی بھی، سول سوسائٹی بھی مذہبی بھی اور لبرل بھی، یہ دشمن کی شکست ہے۔