مضامین

ایران کی یقین دہانی: پاکستان چاہ بہار منصوبے سے خائف کیوں؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادراہ) پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چابہار اور گوادر بندرگاہیں ایکدوسرے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ گوادر اور چاہ بہار سسٹرز پورٹس ہیں ، چاہ بہار اب ایک بین الاقوامی پورٹ بن رہی ہے چاہ بہار میں دنیا کے متعدد ممالک کے لوگ آ کر کاروبار کر رہے ہیں۔

شیعہ نیوز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چابہار اور گوادر بندرگاہیں ایکدوسرے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ گوادر اور چاہ بہار سسٹرز پورٹس ہیں ، چاہ بہار اب ایک بین الاقوامی پورٹ بن رہی ہے چاہ بہار میں دنیا کے متعدد ممالک کے لوگ آ کر کاروبار کر رہے ہیں۔  ایرانی سفیر نے خطے میں کشیدگی کوخطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرح ایران کو بھی دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے، دونوں ممالک کومنشیات کی لعنت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، جس کے لیے ملکرکام کرناہوگا، خطے میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

مہدی ہنر دوست نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر ایران معاہدے پر قائم ہے، ایرانی گیس پاکستان کے لیے سستی ہے۔ سیمینار سے خطاب میں ایرانی سفیر نے مزید کہا کہ اس وقت ایران پاکستان کو 75میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے، مستقبل میں ایران پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ تک بجلی فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی، ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے چار دن قبل ایران کی جنوبی بندرگاہ چاہ بہار کے حوالے سے تین طرفہ ٹرانزٹ معاہدہ کیا، معاہدے کے تحت ہندوستان، ایران میں بندرگاہ کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

چابہار بندرگاہ کوخطے میں اقتصادی اور معاشی  رونق کو فروغ دینے کے لئے  اہم قراردیا جارہا ہے۔  چا بہار اور گوادر کے درمیان چند گھنٹے کی مسافت ہے اور دونوں کو خلیج اومان کے راستے براہ راست بحر ہند تک رسائی حاصل ہے۔ چابہار منصوبے کے تحت افغانستان اور وسطی ایشیا تک سہولت سے پہنچا جا سکے گا۔ جبکہ گوادر منصوبہ اگرچہ ابتدائی طور پر شاہراہ ریشم کے راستے چین تک رابطہ استوار کرے گا لیکن مستقبل میں اس مواصلاتی نظام کو افغانستان اور وسطی ایشیا سے بھی جوڑا جا سکے گا۔ بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔

 اس لئے اس کے لئے یہ دونوں منصوبے بہت اہم ہیں۔ لیکن پاکستان دشمنی اور چین کے ساتھ کاروباری اور عسکری مخاصمت کی وجہ سے بھارتی حکومت پاک چین راہداری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اسی پس منظر کی وجہ سے پاکستان میں شبہات جنم لے رہے ہیں اور یہ بات کی جا رہی ہے کہ چابہار کے ذریعے متبادل مواصلاتی نظام استوار ہونے سے گوادر کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ حالانکہ وسطی ایشیا تک مواصلت کی ضروریات کے پیش نظر دونوں منصوبے اس پورے خطے میں اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایران کے سفیر ہنر دوست نے اپنے لیکچر میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے تعاون کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ تجارت اور سیاست میں فرق کرنا ضروری ہے۔ تاہم دنیا کی سیاست اس وقت ملکوں کے اقتصادی مفادات اور تجارتی ضرورتوں ہی کی محتاج ہے۔ لیکن پاکستان کے لئے ایران جیسے قریبی ہمسایہ ملک کے ساتھ تعاون اور دوستی برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔ چین پہلے ہی گوادر اور چا بہار کے درمیان تعاون کی بات کرچکا ہے۔

 ایک دوسرے سے ساڑھے تین سو کلو میٹر کی مسافت پر واقع ان دونوں منصوبوں کے درمیان تعاون اور اشتراک ہی سب ملکوں کے لئے سود مند ہو سکتا ہے۔ پاک چین راہداری کا بنیادی مقصد گوادر اور چین کے صوبے چنکیانگ کے درمیان شاہراہوں اور ریلوے کے ذریعے رابطہ استوار کرنا ہے۔ اس لئے ابتدائی طور پر چا بہار اور گوادر کا کاروباری مقابلہ نہیں ہو گا۔ البتہ افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لئے دونوں راستے مناسب ہوں گے۔ تاہم وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لئے کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد کے لئے افغانستان میں امن کا قیام بے حد ضروری ہے۔ ایرانی سفیر کی باتوں پر غور کیا جائے تو یہ قیاس کیاجا سکتا ہے کہ ایران کو اس معاملہ کی نزاکت کا احساس ہے۔ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان، ایران اور بھارت ، سب ہی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ تینوں ملک اگر اپنی سیاست کو اس خطے کے عوام کی اقتصادی ضرورتوں کے تناظر میں دیکھنا شروع کرسکیں تو سیاسی حالات بھی تیزی سے بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ صرف اس پورے خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے بلکہ موجودہ مقابلے بازی کی صورت حال دوستانہ مسابقت میں بدل سکتی ہے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہوگی۔ اسی طرح جنگ کی بجائے کاروبار اور صنعتیں فروغ پائیں گی اور سب ملکوں کے لوگوں کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہو سکیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button