ریاستی اداروں میں فرقہ وارانہ رجحانات
تحریر: ضیاء اللہ سیالوی
عنوان سے یہ خیال ذہن میں نہ جائے کہ ہمارے ریاستی ادارے فرقہ واریت کا شکار ہوچکے ہیں اور وہاں کوئی مسلکی تفریق قائم ہے۔ ملک کے سکیورٹی ادارے ہوں یا عدلیہ، محکمہ تعلیم ہو یا صحت، الحمدللہ یہ ادارے آج بھی تمام پاکستانیوں کی خدمت پر مامور ہیں، تاہم یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد اسی معاشرے کے شہری ہیں، جہاں مسلکی تقسیم بڑھ چکی ہے۔ مختلف اداروں میں کام کرنے والے افراد پر معاشرتی رویوں کے اثرات ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ کسی ادارے میں اگر کوئی شیعہ بیٹھا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہم مسلک کو ترجیح دے۔ اسی طرح اگر کسی ادارے میں کوئی دیوبندی، اہل حدیث یا بریلوی مسلک کا پیروکار موجود ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے ہم مسلک افراد کو ترجیح دیتا ہے۔ بحیثیت پاکستانی ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ کسی بھی ادارے میں اگر کوئی کام پڑ جائے تو سب سے پہلے اس ادارے میں موجود کسی فرد کا ریفرنس تلاش کرتے ہیں، مذہبی ریفرنس ان میں سے ایک ہے۔ اداروں میں موجود افراد بھی کسی بھی مسلکی ریفرنس سے آنے والے افراد کا کام کرنا عبادت تصور کرتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔
یہ رویے آج کے نہیں ہیں۔ ان کا سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی مذہب و مسلک سے وابستگی۔ معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے، جب ان اداروں میں موجود مسلکی شناخت کے حامل افراد کی فکر پر ریاستی پالیسی وضع کی جانے لگے۔ ریاستی پالیسیوں اور امور کے نظم و نسق کے حوالے سے بھٹو کے دور تک ہمارا ملک تقریباً سیکولر نوعیت کا رہا، تاہم جنرل (ر) ضیاءالحق کے دور میں عالمی حالات بالخصوص افغان جہاد کے سبب ریاستی پالیسیوں میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اس تبدیلی کا سبب خاص مسلکی شناخت کے حامل افراد کا پالیسی ساز اداروں میں اکٹھ تھا۔ ملک کے تمام تر اہم اداروں کی کمان ایسے افراد کے ہاتھ میں دی گئی، جو جہاد افغانستان کی مشروعیت کے قائل تھے اور اس عمل کو عبادت سمجھ کر انجام دینے کا جذبہ رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا ہر مسلک سے دستیاب ہونا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اس دور میں ریاستی پالیسی کے تحت دیوبند اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک کثیر تعداد میں ترقیاں دی گئیں۔
اہل دانش اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جنگیں فقط محاذوں پر نہیں لڑی جاتیں، ان جنگوں کو علمی، معاشی اور معاشرتی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا افغان جنگ کو لڑنے کے لئے زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں خاص مسلکی شناخت کے حامل افراد کو رواج دیا گیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ سے لے کر سکول کے ٹیچرز تک، سب اس جنگ میں ریاستی اداروں کے پشتی بان بنے۔ جہاد افغانستان تو ختم ہوا، تاہم یہ بھرتیاں اور ترقیاں وہیں کی وہیں رہیں۔ ایک جاتا تو اس کی جگہ دوسرا لے لیتا۔ یوں ہمارے ریاستی اداروں میں خاص مسالک کے افراد کی اکثریت نے جنم لینا شروع کیا۔ آج آپ ملک کے اداروں کی اعلٰی ترین پوسٹوں کا جائزہ لیں تو آپ کو بہت سے ایسے افراد نظر آئیں گے، جن کا تعلق مذکورہ بالا مسالک سے ہے۔ ملک کا چوتھا ستون یعنی صحافت بھی اسی انداز سے مرتب ہوا ہے۔
افغان جہاد پالیسی تو ختم ہوگئی، تاہم اس کے لئے اداروں میں لائے گئے افراد بدستور اپنے عہدوں پر براجمان رہے، ان افراد نے کار ریاست کے خاتمے کے بعد خدمت مسلک کا کام انجام دینا شروع کیا۔ پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلک اہلسنت والجماعت (بریلوی) مسلک ہے، تاہم ملک کے اہم ترین اداروں کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو ان اداروں کے اہم عہدوں پر خال خال اہل سنت والجماعت نظر آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے اہل سنت والجماعت دیگر مسالک کے افراد کی مانند ذہین نہیں ہیں، کیا اس مسلک کے افراد اعلٰی تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ کیا ان میں اہلیت نہیں ہے کہ وہ ملکی اداروں کا انتظام و انصرام چلا سکیں۔
میں کسی مسلک کے فرد کی کسی بھی ادارے میں مسلک کی بنیاد پر ترقی کا مخالف نہیں ہوں، بلکہ میرے خیال میں ہر ادارے میں معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرتیاں اور تقرریاں کی جانی چاہیں، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک ہی مسلک کے افراد کسی بھی ادارے میں تقرر کے اہل قرار پاتے ہیں۔ شاید آپ مجھے اس عنوان سے زیادہ حساس تصور کریں، تاہم میری نظر کے سامنے ملک میں ہونے والے بہت سے دہشت گردی کے واقعات ہیں، بالخصوص وہ واقعات جو ہمارے سکیورٹی اداروں پر ہوئے۔ ان واقعات میں ہمیں انہی اداروں کے افراد کا کردار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اگر ان اداروں کے کارکنان اپنے مسلک کی خدمت میں ریاستی ادارے پر حملے میں معاونت جیسا گھناونا فعل سرانجام دے سکتے ہیں، تو دوسرے مسلک کی دشمنی میں ان کے لئے کسی بھی حد تک جانا، ناممکن نہیں ہے۔
لہذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ملک کو حقیقی امن و استحکام دینے کے لئے اس کے اہم اداروں بلکہ تمام تر اداروں کو مسلکی عصبیت کے حامل افراد سے پاک کیا جائے، یا کم از کم ایسے افراد کو اہم فیصلہ سازی کی حامل نشستوں سے دور کیا جائے۔ جب تک ملکی اداروں میں موجود ایسے افراد کا مقاطع نہیں ہوتا، اس وقت تک ملک میں دہشت گردی، بدامنی کے خلاف ہونے والی کسی بھی کوشش کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہمیں اس مسئلہ سے بالکل اسی سطح پر نبرد آزما ہونا ہوگا، جس سطح پر اس مسئلہ کو جنم دیا گیا۔ امید ہے کہ اداروں میں موجود مخلص پاکستانی اور پاکستان کے صاحبان اقتدار اس جانب ضرور توجہ دیں گے۔
]] >