مضامین

پاک ایران تعلقات اور امریکی ہتھکنڈے

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

ملا اختر منصور کی ہلاکت پر پاکستانی دفتر خارجہ کا موقف تاخیر سے کمزور انداز میں آیا، جسکی وجہ سے کئی شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ یہ ڈرون حملہ ایسے وقت میں ہوا جب حزب اسلامی افغانستان کے امیر حکمت یار کے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ معاملات بہت حد تک طے ہوچکے تھے اور دو دن بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر جا رہے تھے، جہاں انہوں نے ایرانی صدر کے ہمراہ بندرگاہ چاہ بہار میں ایک منصوبے کا افتتاح کرنا تھا، جبکہ دوسری جانب پاکستانی قیادت کے بقول سفارتی سطح پر افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مثبت پیش رفت کی امید تھی۔ ایسی صورتحال میں امریکی حکام کا یہ کہنا کہ ہم نے ایک اہم مشن مکمل کیا ہے اور اس کے بعد پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے صرف ایرانی ویزے کے حامل پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تصدیق پر ہی زور کیوں دیا، لیکن چوبیس گھنٹے گذرنے کے باوجود قلعہ عبداللہ کے علاقے میں کوئی تصدیقی سرگرمی نظر نہیں آئی۔

یہ پاکستانی صوبے بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ تھا، حملے کے بعد جلتی گاڑی بھی دکھائی گئی، حالانکہ اس سے قبل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے کسی ڈرون حملے کی ویڈیو نہیں جاری کی گئیں۔ اس حملے میں گاڑی تباہ ہوگئی، لیکن پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں جلے، جس طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد صرف مبینہ ہائی جیکر کا پاسپورٹ جلنے سے بچ گیا تھا۔ حملہ پاکستانی سرزمین پر کیا گیا، لیکن ملا اختر منصور ایران کیوں گئے تھے، اس سوال سے حملے کے مقاصد کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، حالانکہ افغان طالبان کبھی ایران کے قریب نہیں رہے، نہ تعلقات مثالی ہیں، حکمت یار نے ایک عرصہ ایران میں گذارا ہے اور وہ مذاکراتی عمل کے بعد مفاہمت کرچکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کی منظوری سے کئے گئے ڈرون حملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پینٹاگون، امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاوس نے اس کامیاب کارروائی کا مقصد یہ بتایا کہ ملا اختر منصور مذاکراتی عمل سے گریزاں تھے، امریکی اہداف اور اتحادیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

پاکستانی وزارت خارجہ اور وفاقی وزیر داخلہ نے اس امریکی موقف کی نفی کرتے ہوئے، اس حملے کو بھی مذاکراتی عمل میں ہونے والی پیش رفت میں دراڑ قرار دیا۔ اس کی مثال بیان کی گئی کہ جس طرح مری مذاکرات کے دوران ملا عمر کی ہلاکت کی خبر لیک کر دی گئی تھی اور مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہوگیا۔ امریکی کارروائی سے ایک طرف افغان امن عمل کو سخت نقصان پہنچا ہے اور دوسری طرف یہ حملہ چونکہ عین اس وقت کیا گیا جب بھارتی وزیراعظم چاہ بہار بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبے پر کام کے سلسلے میں ایران میں گئے۔ افغان طالبان پاکستان کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں، انکے درمیان اور پاکستان کے درمیان خلیج وسیع ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں اسلامی جمہوری ایران کے متعلق بھی منفی تاثر کو ہوا دی گئی۔

امریکی ڈورن حملے اور ایسی اطلاعات کہ ملا اختر منصور کی فیملی ایران میں ہے، وہ وہاں علاج کروا رہے تھے، انہیں سہولتیں میسر تھیں اور مغربی ذرائع ابلاغ کی یہ فرسودہ رپورٹس کہ افغانستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں اسلامی جمہوری ایران کا ہاتھ ہے، جیسی خبروں کے جواب میں ایرانی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا کہ ایران ملا اختر منصور جیسے لوگوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔ یہ وضاحت تھی کہ ایران افغانستان سمیت خطے میں امن چاہتا ہے۔ ایران کا موقف واضح ہے کہ یہ بیرونی مداخلت ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا، مشرق وسطٰی سمیت پوری دنیا بدامنی کا شکار ہے، امریکی ڈرون حملے تو آج کی بات ہیں، خود امریکی وسعت پسندی اور استحصالی نظام عالمی امن کے لئے خطرہ ہے۔ ایرانی سفیر نے بھی واضح طور پر کہا کہ چاہ بہار کسی طور پاکستان کے لئے نقصان دہ نہیں۔

اس سے قبل بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے بعد بھی یہی عمل دہرایا گیا تھا، اس سارے عمل میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری میں افغان طالبان کا کردار تھا۔ ملا اختر منصور کی مخبری کا الزام پاکستان کے حساس اداروں پر بھی لگایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ اشارے بھی دیئے جا رہے ہیں کہ چونکہ ایرانی ویزے کے حامل بھارت جاسوس کی گرفتاری میں افغان طالبان کا ہاتھ تھا، اس لئے ملا اختر منصور کی ہلاکت میں ایران ملوث ہے۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس معاملے میں بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات کا تقاضا ہے کہ امریکی امداد جاری رہے، لیکن امریکہ اس حوالے سے پاکستان پر دباو بڑھاتا چلا جا رہا ہے، ایف سولہ طیاروں کی فراہمی میں تاخیری حربے اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف موثر کارروائی کے مطالبے کے دوران ہی امریکی دانست میں پاکستانی حمایت یافتہ افغان طالبان لیڈر کی پاکستانی سرزمین پر ہلاکت سے یہ بات زیادہ الجھی ہوئی نہیں لگتی کہ امریکی پاکستان سے کیا چاہتے ہیں، البتہ پیسے وہ ضرور دیں گے۔

جہاں تک پاک امریکہ تعلقات کا تعلق ہے، ان میں ایبٹ آباد آپریشن، نیٹو سپلائی کی بندش جیسے ایشوز کے بعد سے مسلسل تناو موجود ہے، لیکن امریکہ اپنی خواہشات کے مطابق خطے میں دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتے ہوئے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے بلاک میں نہ رہے۔ اس سے قبل پاک ایرا
ن گیس معاہدے کیخلاف امریکی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ لیکن امریکی مفادات کا تقاضا اس سے بڑھ کر ہے، امریکی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ گیس معاہدے کو عملی جامہ نہ پہنائے، بلوچستان میں امریکی ڈرون حملہ اور ایرانی ویزے کے حامل پاسپورٹ کی نمائش انہی اقدامات کا حصہ ہے۔ پاکستانی حلقوں میں پاک ایران تعلقات کے حوالے سے ایک الجھاو ایران اور بھارت کے درمیان اقتصادی معاہدوں کیوجہ سے بھی ہے، لیکن اس کے عوامل اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک خارجہ پالیسی کی تصویب اور ترجیحات کے تعین میں سول ملٹری تناو اور مختلف موثر اعضاء کی دنیا میں پھیلی ہوئی مصلحتیں ہیں، ورنہ کسی طور پر بھی پاکستانی اہل حل و عقد سے یہ بات مخفی نہیں کہ امریکہ نہ صرف ایک گہری سازش کے تحت مسلم ممالک کو باہمی طور پر لڑانا چاہتا ہے، بلکہ ان کے وسائل اور طاقت کو ضائع کرنے کے درپے ہے، تاکہ اپنے مفادات کو وسعت دے سکے۔

امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھ کر عملی اقدامات سے پہلے ہر چیز کا جائزہ لیں گے، کیونکہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی کا اہم مقصد پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو نشانہ بنانا ہے۔ جب پاک ایران تعلقات میں اتار چڑھاو کی بات کریں تو رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی وہ گفتگو ذہن میں آتی جب انہوں پرویز مشرف کی طرف سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی سے متعلق الزامات کے ضمن میں فرمایا کہ ہمارے لئے یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستانی اور ایرانی مسلمانوں کے دلوں میں دوریاں پیدا کرنے کے لئے ایک ذمہ دار سربراہ مملکت بے جا بیانات کے ذریعے عالمی طاقتوں کے عزائم کی تقویت کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں مایوسی سے بچنا چاہیے۔ بدلتے حالات، عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے باوجود دونوں برادر ممالک کے درمیان صمیمیت اور محبت آمیز ہم آہنگی کی امید کیساتھ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی وطن عزیز پاکستان کو نیک نیت، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نصیب فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button