روزے کا فلسفہ، چند معروضات
تحریر: امجد عباس (مفتی)
ارشادِ ربانی ہے "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” ﴿البقرۃ:١٨٣﴾ کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی (ترجمہ مولانا مودودیؒ)۔ اِس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ روزے کا اصل مقصد محض کھانے پینے سے رُکنا نہیں، بلکہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ یہی روحِ روزہ ہے، اِس کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے۔ روزہ بنیادی طور پر ایک مشق ہے، ایک مہینے تک انسان جائز چیزوں سے بھی اجتناب کرتا ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مہینے کے بعد حرام اور ناجائز چیزوں سے ضرور اجتناب کرے گا۔ یہ تب ہے جب وہ روزے کے اِس فلسفے سے بخوبی آگاہ اور اِس طرف متوجہ ہو۔ اگر انسان روزے کو صرف "بھوک ہڑتال” سمجھتا رہے تو "تقویٰ” کی صفت پیدا نہ ہوگی، اِسی کے پیش نظر قرآن میں اللہ تعالٰی نے "لعلکم” کی تعبیر استعمال کی ہے کہ "توقع ہے/شاید” تُم احکامِ خداوندی پر عمل کرنے والے بن جاؤ۔ یہ شک (شاید) ہماری نسبت سے ہے۔ ملحوظ رہے کہ روزے میں جہاں کچھ جائز اور حلال کام منع ہیں، وہیں تمام حرام کام بطریقِ اولٰی منع ہیں۔ روزے میں کھانا، پینا اور جماع جیسے جائز امور سے روکا گیا ہے تو جھوٹ، لڑائی، گالی، حسد، بے ایمانی اور فراڈ جیسے حرام کاموں کے انجام کا بھی کوئی جواز نہیں رہتا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے عبادات و ریاضات کی ظاہری شکل پر زور دیا، جبکہ اُن کی روح کو فراموش کر دیا ہے، جو روزہ کسی انسان کو پرہیزگار و دین دار نہیں بنا سکتا، وہ محض بھوک ہڑتال کے سوا کچھ نہیں ہے، چنانچہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی حالت نماز کی بھی ہے، حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ جو بندہ دِن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالٰی کے حضور پیش ہو، وہ کیسے بے حیائی اور دیگر جرائم انجام دے سکتا ہے! (نہج البلاغہ میں تفصیل سے مذکور ہے)۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ بے شک نماز بُرائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ نماز پڑھ کر بھی لوگ بُرے کاموں سے نہیں بچتے، اُس کی بظاہر ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ نماز کو بغیر توجہ اور اِس کی مقصدیت کو سمجھے بغیر انجام دیتے ہیں۔ روزہ دار جہاں کھانے پینے وغیرہ جیسے جائز امور سے اجتناب کرتے ہیں، وہیں تمام گناہوں سے بھی بچنا چاہیے اور تمام فرائض کو بجا لانا چاہیے، تب ہی روزہ فائدہ مند ہوگا اور روزہ دار احکامِ خداوندی کے عامل قرار پائں گے۔ ملحوظ رہے کہ عوام الناس میں مشہور ہے کہ روزہ رکھ کر توڑنا اور سرے سے نہ رکھنا دونوں میں فرق ہے۔
اکثر اوقات لوگ اِس لئے روزہ نہیں رکھتے کہ اگر بھوک اور پیاس کی شدت نے بیتاب کیا تو روزہ توڑا بھی نہیں جاسکے گا، ورنہ کفارہ دینا ہوگا۔ یہ غلط بات ہے۔ روزہ سب پر فرض ہے، سبھی مسلمانوں پر اذانِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانا، پینا وغیرہ منع ہیں۔ یہ ممانعت ایک خاص وقت (اذانِ فجر) سے شروع ہو کر ایک خاص وقت (غروبِ آفتاب) پر ختم ہوجاتی ہے۔ روزہ نہ رکھنا اور رکھ کے توڑ دینا دونوں ایک جیسے گناہ ہیں۔ جو دوست روزہ رکھنے سے گھبراتے ہیں، اُنھیں مشورہ ہے کہ سحری ضرور کرکے روزہ رکھ لیں، پھر دیکھیے اگر گزارا ہو جائے تو بہت اچھی بات، ورنہ توڑنا بھی ویسا ہی گناہ ہے جیسے نہ رکھنا۔ روزہ حقیقت میں اذانِ فجر سے غروبِ آفتاب تک اللہ تعالٰی کی منع کردہ چیزوں سے رُکنے کا نام ہے۔
جیسے ہی اذانِ فجر کا صحیح وقت شروع ہوگیا یہ ممانعت شروع ہوگئی، غروبِ آفتاب تک۔ اب جیسے ہی غروبِ آفتاب ہوگیا ہمارے اوپر پابندی اُٹھ گئی۔۔۔ یہاں سے یہ بات بھی ذہن نشین رکھ لیجیے کہ روزہ "باندھنا” یا "کھولنا” نہیں پڑتا، اذانِ فجر کے ساتھ ممانعت شروع ہوتی ہے، غروبِ آفتاب پر از خود ختم ہوجاتی ہے۔ روزے کا مقصد انسان کو صبر پر ابھارنا بھی ہے، ایسے میں اذانِ مغرب کے ساتھ ہی روزے کو فوری کھولنے کے چکر میں دن بھر کے صبر کا جنازہ نکالنا غیر مناسب رویہ ہے۔ شرعی طور پر، غروبِ آفتاب کے بعد بھی روزے کی نیت سے کچھ نہ کھانا پینا منع ہے، یہ ضروری نہیں کہ افطار کا وقت ہوتے ہی روزہ باقاعدہ کھولا جائے، آپ آرام سے، صبر و شکر کے ساتھ افطار کیجیے۔ اگر ہمت ہے تو نمازِ مغرب پڑھ کر کھا پی لیجیے، ورنہ پہلے کھا پی لیجیے، پھر نماز پڑھیے اور مجھے بھی دعا میں یاد رکھیے۔