مضامین
بدن کی موت سے کردار مرنہيں سکتا ، شہید مطہری کی یاد میں
دومئی کی تاریخ عظیم اورممتازاسلامی دانشور اورمفکراسلام شہید آيت اللہ استاد مرتضی مطہری کی شہادت کی اکتیسیویں برسی کی تاريخ تھی اس موقع پرایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں عصرحاضرکے اس عظیم اسلامی نظریہ پردازکے حضورخراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ استاد شہید مطہری کوآج سے اکتیس برس قبل، انقلاب دشمن سامراجی ایجنٹوں نے ان کے گھر کے باہرانھیں گولی مارکرشہید کردیا تھا ۔ اس ميں شک نہيں کہ آیت اللہ استاد شہید مطہری کی شہادت سے اسلامی دنیا میں ایک بہت بڑا خلاء پیداہوگیا تھا اوران کی حیات کی برکتیں خاص طورپراس وقت ایران کے انقلابی عوام سے دشمنوں نے چھین لیں مگراستاد مطہری نے جس طر ح سے اپنی حیات کے قیمتی برسوں میں اسلام اورمسلمانوں کی خدمت کی اوران کے رشحات قلم جوسیکڑوں بیش بہا کتابوں اورمقالوں کی شکل میں ابدی ذخیرہ بن چکے ہيں وہ سب کے سب بلاشبہہ موجودہ اورآئندہ نسلوں کے لئے چراغ ہدایت اورجہالت وگمراہی، رجعت پسندی وفکری جمود کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشن مناروں اوردرخشاں قندیل کی مانند لوگوں کوبیداری علمی آگہی اوربالغ نظری وفکری بالیدگی کے میدان کا راستہ متعارف کراتے ہيں ۔ بزرگ عالم دین آیت اللہ امامی کاشانی نے خوب کہا ہے کہ شہید مطہری کی گفتار کلمہ طیب اوران کے قلمی کارنامے عمل صالح کے مصداق کے طورپرآئندہ تمام نسلوں کے لئے بے شمار فیوض وبرکات کا خزانہ ثابت ہوتے رہيں گے شہید استاد مطہری کے سلسلے میں اسی لئے ان کے عظیم استاد اورعصرحاضر کی لافانی شخصیت یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ کہ مطہری میری عمر کا ماحصل تھےشہید استاد مطہری نے حضرت امام خمینی رح، علامہ طباطبائی اورآيت اللہ العظمی بروجردی جیسے متعدد عظیم اساتذہ سے کسب فیض کیا تھا ۔ یقینی طورپر شہید استاد مطہری کواسلامی انقلاب کا ایک بڑا نظریہ پردازکے طورپریاد کیا جاتا ہے ۔ شہید مطہری ایک ایسے عظیم استاد تھے کہ جن کے بارے میں امام خمینی نے فرمایا تھا کہ معاشرے کے تمام طبقوں خاص طور پرجوانوں کوان کی کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔ شہید استاد مطہری جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں اس مختصرسے پروگرام میں کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ انھوں نے انسانی معاشروں کولاحق ہرطرح کے مسائل پربہت ہی کھل کربات کی اوران کا منطقی اورجامع حل بھی پیش کیا ہے ان کی پوری زندگی، منافقت، رجعت پسندی ،فکری جمود اوراستبداد کے خلاف جد جہد میں بسرہوئی۔ امام خمینی کوترکی اوراس کے بعد عراق جلاوطن کئے جانے کے بعد اصل اسلامی تعلیمات کوجوفقاہت واجتہاد سے عبارت تھیں فکری گوشہ نشینی کی نذرکرنے کی کوشش کی جارہی تھی جو پورے مسلم معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہورہا تھا کہ کیونکہ معاشرے میں بدعتوں اورخرافات کورواج دینے کی کوشش کی جارہی تھی اوریوں ایران کے معاشرے کوگمراہی کے راستے پرچلے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا اوریہ سب کچھ بہت منظم طریقے سے کیا جارہا تھا۔ مگریہی وہ مرحلہ تھا جب شہید استاد مطہری نے اپنی شرعی ذمہ داریوں کا بھرپوراحساس کیا اورپھر ایرانی عوام کواسلامی تعلیمات کی روشنی سے منورکرنے کا بیڑا پوری قوت کے ساتھ اٹھایا ۔ انھوں نے اس سلسلے میں جوسب سے پہلا قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ انھوں نے ارشاد نامی ایک بڑا حسینیہ یا امام بارگاہ تعمیرکرایا جس میں استاد شہید مطہری اپنے ماہرانہ فن خطابت ووعظ کا استعمال کرتے ہوئے پوری فصاحت و بلاغت کے ساتھ معاشرے میں رواج دئے جانےوالے خرافات اوربدعتوں کا سرقلم کردیا اوران غلط باتوں کوجنھیں اسلامی تعلیمات میں جان بوجھ کرخلط کردیا گیا تھا تاکہ اسلام کا چہرہ بگاڑدیا جائے اسلام کے دامن سے نکال کردورپھینک دیا اوراسلام کی صحیح تصویرلوگوں کے سامنے پیش کی۔ اس وقت کی شاہی حکومت پورےمعاشرے کومغرب زدہ بنانے پرکمربستہ ہوچکی تھی مگراستاد شہید مطہری نے بروقت میدان عمل میں اترکرمعاشرے کوجس کی جڑیں پہلے سے ہی اسلام ولایت میں پیوست تھیں ہر طرح کی گمراہی وانحرافات میں مبتلاہونے سے بچالیا اورایران کی جوان نسل ميں تازہ خون دوڑا یا جوکچھ عرصہ کے بعد ملک سے مغرب نوازحکومت کواکھاڑپھینکنے اورپورے ملک میں اسلامی تعلیمات پراستوار ایک حقیقی اسلامی حکومت تشکیل دینے کی راہ میں سب سے زیادہ موثروکارآمد ثابت ہوئی ۔ استاد شہید مطہری کومعاشرے کے حالات کا پوراعلم تھا اورسماج کی نبض ان کے ہاتھ میں تھی اورچونکہ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی سماجی تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اسے نظریاتی عقیدتی اورثقافتی حمایت بھی حاصل ہوانھوں نے اس کے لئے انقلاب کے نظریاتی اورفکری اصولوں کولوگوں کے سامنے پہلے سے متعارف کرادیا تھا وہ شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران حالات کے مطابق اپنی روش میں تبدیلی لایا کرتے تھے اسی لئے شاہی حکومت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ساواک کوان کی ذات سے ہمہ وقت خوف لاحق رہتا تھا کیونکہ شاہی نظام اوراس کی خفیہ ایجنسی کواس بات کا پوری طرح علم تھا کہ آیت اللہ مرتضی مطہری، شاہی حکومت پرضرب لگانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہيں دیتے ۔ اوریوں امام خمینی کے اس عظیم اورممتازشاگرد نے اپنے استاد کی رہنمائیوں کے زیرسایہ ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک روزبروزمستحکم کی اوراستبداد کے خلاف جد وجہد کی ایک نئي داستان رقم کی ۔اس کے علاوہ شہید استاد مطہری نے نفاق اورمنافقت کا بھی بھرپو
رمقابلہ کیا جومعاشرے کے لئے بہت ہی خطرناک بن چکی تھی ۔ شہید استاد مطہری نےانیس سواکہتر میں اپنی ایک تقریرکے دوران پوری صراحت کے ساتھ اس خطرے سے لوگوں کوآگاہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اس خطاب میں کہا تھاکہ قرآن نے مومنین کے مقابلے ميں دوگروہوں کوقراردیا ہے ایک گروہ کافروں کا ہے اوردوسرا گروہ منافقین کا ہے۔ انھوں نے قرآنی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے منافقوں کوکافروں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت کیا تھا ۔ انھوں نے اپنے اس خطاب میں کہا تھا کہ ہرچند انسان نے ترقی وپیشرفت کی منزلیں طے کرلی ہيں مگرساتھ ہی اس نے منافقت پربھی اتنی ہی زیادہ دست رسی حاصل کرلی ہے انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ صدراسلام کے مقابلے میں اس دورمیں نفاق کی شرح زیادہ ہوگئی ہے اسی لئے اگراس دورکونفاق کا دورکہا جائے تومبالغہ نہيں ہوگا انھوں نے کہا تھا کہ کھلے دشمن سے جنگ کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت چھپے ہوئے دشمنوں اورمنافقوں سے جنگ کرنے سے ۔البتہ انھوں نےیہ بات بھی صاف کردی تھی کہ منافقوں کا کسی بھی طرح سے صفایا نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کا مقابلہ کرنے کےلئے ایمان اوراعتقاد کی بنیادوں کومستحکم بنانا ضروری ہے ۔ اسی لئے شہید مطہری نے ان تمام محاذوں کے مقابلے میں قلم کے ذریعہ وہ جہاد کیا ہے جس کا اثررہتی دنیا تک باقی رہے گا یہی وجہ تھی کہ منافقوں نے اپنی منافقانہ چالوں کے ذریعہ شہید مطہری کواپنے راستہ کی سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے انھیں اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا اوربزدلانہ طریقے سے اس عظیم شخصیت کومعاشرے سے چھین لیا لیکن منافقوں اوردشمنوں کوشاید یہ بات معلوم نہيں تھی کہ چھری کی دھار سے کٹتی نہيں چراغ کی لو: بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا :استاد شہیدمطہری کے افکار ونظریات آج سرحدوں کوعبورکرچکے ہيں اوران کے خون جگرکی روشنائی جوقلم کی نوک سے صفحات قرطاس کومنورکئے ہوئے ہے آج پوری دنیا میں پھیل چکی ہے ۔
رمقابلہ کیا جومعاشرے کے لئے بہت ہی خطرناک بن چکی تھی ۔ شہید استاد مطہری نےانیس سواکہتر میں اپنی ایک تقریرکے دوران پوری صراحت کے ساتھ اس خطرے سے لوگوں کوآگاہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اس خطاب میں کہا تھاکہ قرآن نے مومنین کے مقابلے ميں دوگروہوں کوقراردیا ہے ایک گروہ کافروں کا ہے اوردوسرا گروہ منافقین کا ہے۔ انھوں نے قرآنی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے منافقوں کوکافروں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت کیا تھا ۔ انھوں نے اپنے اس خطاب میں کہا تھا کہ ہرچند انسان نے ترقی وپیشرفت کی منزلیں طے کرلی ہيں مگرساتھ ہی اس نے منافقت پربھی اتنی ہی زیادہ دست رسی حاصل کرلی ہے انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ صدراسلام کے مقابلے میں اس دورمیں نفاق کی شرح زیادہ ہوگئی ہے اسی لئے اگراس دورکونفاق کا دورکہا جائے تومبالغہ نہيں ہوگا انھوں نے کہا تھا کہ کھلے دشمن سے جنگ کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت چھپے ہوئے دشمنوں اورمنافقوں سے جنگ کرنے سے ۔البتہ انھوں نےیہ بات بھی صاف کردی تھی کہ منافقوں کا کسی بھی طرح سے صفایا نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کا مقابلہ کرنے کےلئے ایمان اوراعتقاد کی بنیادوں کومستحکم بنانا ضروری ہے ۔ اسی لئے شہید مطہری نے ان تمام محاذوں کے مقابلے میں قلم کے ذریعہ وہ جہاد کیا ہے جس کا اثررہتی دنیا تک باقی رہے گا یہی وجہ تھی کہ منافقوں نے اپنی منافقانہ چالوں کے ذریعہ شہید مطہری کواپنے راستہ کی سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے انھیں اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا اوربزدلانہ طریقے سے اس عظیم شخصیت کومعاشرے سے چھین لیا لیکن منافقوں اوردشمنوں کوشاید یہ بات معلوم نہيں تھی کہ چھری کی دھار سے کٹتی نہيں چراغ کی لو: بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا :استاد شہیدمطہری کے افکار ونظریات آج سرحدوں کوعبورکرچکے ہيں اوران کے خون جگرکی روشنائی جوقلم کی نوک سے صفحات قرطاس کومنورکئے ہوئے ہے آج پوری دنیا میں پھیل چکی ہے ۔