مضامین
شہید مطہری کے یوم شہادت کی مناسبت سے
ایران کا اسلامی انقلاب ان گہری علمی ، فکری اور ثقافتی کوششوں کا مرہوں منت ہے جو گزشتہ کئی صدیوں کے دوران عالم اسلام کے اہم مفکرین اور دانشوروں نے اپنی اپنی سطح پر انجام دی ہیں علامہ مرتضی مطہری عصر حاضر کے ان ہی ممتاز مفکرین میں سے ہیں کہ جنہوں نے اسلام سے اپنی گہری آشنائی کے سبب عصر حاضر کی نئی نسلوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے اطمینان بخش جواب فراہم کئے ہیں ۔ شہید مطہری نے ایک ایسے زمانے میں کہ جب ہرطرف سے غیر اسلامی الحادی افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کی ترویج و اشاعت کے لئے طرح طرح کے نغمے الاپے جارہے تھے اپنے استاد امام خمینی (رح) کے ساتھ مل کر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی انقلابی افکار و نظریات کا احیاء اور نفاذ کیاہے ۔ فکری انحرافات سے جنگ شہید مطہری کی تحریروں میں جگہ جگہ صاف طور پر جلوہ گر ہے ۔ خود آپ نے اپنی کتاب ”عدل الہی” میں لکھاہے :” ایک طرف سے مغربی سامراج اور اس کے خفیہ اور آشکارا آلہ کاروں کی یلغار اور دوسری طرف اسلام کی حمایت کے دعویدار عصر حاضر کے بہت سے لوگوں کے ذریعے جانے یا انجانے میں پیش کئے گئے غلط تصورات کے سبب اصول سے لے کر فروغ تک بہت سے میدانوں میں اسلام کے محکم نظریات ، حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ اسی لئے یہ ناچیز بندہ اپنا فریضہ سمجھتاہے کہ اپنی توانائی کی حد تک اس میدان میں اپنا فریضہ پورا کرے ۔ شہید مطہری نے ” انسانی زندگی میں غیبی امداد ” ، ” الہی انصاف” ، ” پردے” اور ” مادیت کی طرف میلان کے اسباب ” کی مانند عصر حاضر کے بہت سے اہم مسائل پر قلم اٹھایا اور افراط و تفریط پر مبنی غلط تصورات کی بیخ کنی کا ایک منظم پروگرام شروع کردیا ۔ چنانچہ انہوں نے اگر خالص مذہبی و اعتقادی مجمعوں میں واقعات کربلا کی تاریخی حقیقتوں کو ” تحریفات عاشورا” کے عنوان سے اپنی تقریروں میں موضوع سخن بتایا تو دوسری طرف یونیورسٹی کے جوانوں میں جاکر ” اومانزم” ، ” اسلامی تفکر کا احیاء ” اور ” آزادی ” جیسے موضوعات کو اپنی تقریر اور درس و بحث کا محور قرار دیا ۔ حسب ضرورت موضوع اور گفتگو کا انتخاب علامہ مطہری کی تمام تقریروں اور تحریروں میں نمایاں ہے ۔ جس زمانے میں ایران بعض قوم پرست مغرب نوازوں کی پہلوی حکومت کے ساتھ ساز باز کی مشکل سے دوچار تھا اور قوم پرستی اسلام دشمنی کے اظہار کے لئے ایک سیاسی حربے میں تبدیل کی جارہی تھی شہید مطہری نے کتاب ” خدمات متقابل اسلام و ایران ” یعنی ایک دوسرے کے تئیں اسلام و ایران کی خدمتیں لکھی اور دشمنان اسلام کی اس سازش کو براہ راست نشانہ بنایا آپ نے اس کتاب میں صاف طور پر لکھاہے : ” ہم چونکہ اسلام کے نام سے ایک آئین ، مذہب اور نظریے کے پیرو ہیں اور اس میں خود قومیت کا عنصر موجود ہے اس لئے ملیت اور قومیت کے نام سے اس مذہب اور نظریے کے خلاف جو لہر شروع کی گئی ہے ہم اس کی طرف سے ” بے پروا ” نہیں رہ سکتے ۔ اسی طرح جب انہوں نے دیکھا کہ بعض مغرب نواز عناصر مغرب کی بے غیرت مادی تہذیب کی حمایت کے ذریعے اسلامی معاشرے کی پاکیزہ زندگی کو متاثر کرنے کے درپے ہیں اور عورتوں کے سلسلے میں اسلام کے وسیع نظریات کو مبہم و مخدوش کردینا چاہتے ہیں انہوں نے اس موضوع پر دو اہم کتابیں ” مسئلۂ حجاب ” اور ” اسلام میں خواتین کے حقوق ” تحریر کیں اور عورتوں کے مسائل کے سلسلے میں اسلامی طرز تفکر کا علمی پیرائے میں جواب دیا ۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب ” مسئلۂ حجاب ” میں قرآن و روایات پر اپنی گہری نظر کے ساتھ تاریخ بشریت سے بھرپور آگہی اور وسیع مطالعےکے سبب پردے کے موضوع کو عقلی بنیادوں پر استوار قرار دیتے ہوئے ، ویل ڈورانٹ کی کتاب تاریخ تمدن کی مانند اہم تاریخی ماخذوں سے ثابت کیاہے کہ ” پردہ” اسلام سے قبل و بعد دنیا کی دوسری قوموں میں بھی رائج تھا اور اس کے بعد علامۂ موصوف نے مسئلۂ حجاب پر فلسفے ، سماجیات ، اخلاقیات ، اقتصادیات اور نفسیات کی روشنی میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے اور پھر اسلام میں پردہ کا فلسفہ تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ۔ اس کتاب میں ایک مقام پر انہوں نے لکھاہے ” اگر بعض سماجی بھلائیوں کے پیش نظر اسلام نے مرد یا عورت پر معاشرت میں خاص روش اپنانے کا حکم دیاہے کہ اس طور پر رہیں کہ دوسروں کا سکون خلل میں نہ پڑے اور اخلاقی توازن درہم برہم نہ ہو تو اس کا مطلب کسی کو قیدی بنانایا گلے میں غلامی کا قلادہ لٹکادینا یا کسی کی انسانی حیثیت پامال کرنا یا اصل آزادی سلب کرنا نہیں ہے اسلام نے پردہ کے ذریعے عورت کو گھر میں مقید نہیں کیاہے اور نہ ہی اس کی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے کے مواقع سلب کئے ہیں بلکہ حجاب کی بنیاد یہ ہے کہ جنسی صلاحیتیں گھریلو ماحول سے مخصوص رہیں اور معاشرے میں سکون کے ساتھ کام و کوشش کی صلاحیتیں بروئے کار لائی جاسکیں پردہ کام کاج کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا بلکہ عورت کی دوسری توانائیوں کو تقویت پہنچاتاہے ۔” شہید مطہری کے دوسری اہم کتاب جس کا ہم نے ابھی ذکرکیا ” اسلام میں خواتین کے حقوق ہے ” جس میں انہوں نے تحقیقی پیرائے میں اسلام کی منظور نظر خاتون کے ” خصوصیات و کیفیات ” بڑے ہی جامع طورپر بیان کئے ہیں ۔ شہید مطہری کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام قدیم و جدید مکاتب فکر اور علمی اخلاقی ، فلسفی ، سماجی اور نفسیاتی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے ، چنانچہ انہوں نے خاص طور پر انسان اور اس کے مختلف انسانی پہلوؤں کو اپنا موضوع
سخن قراردیاہے اور ” انسان و ایمان ” قرآن میں انسان ” ، ” انسان کامل ” اور ” انسان اور اس کے انجام ” کے عنوان سے مستقل کتابیں لکھی ہیں جن سے اس موضوع پر ان کے ” تبحر فکری ” کا اندازہ ہوتاہے ۔ شہید مطہری علم کو انسانی ترقی و کمال کے اعلی مقاصد تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں وہ اعلی مقاصد جو ایمان کے پرتو میں مشخص ہوتے ہیں ۔ انہوں نے لکھاہے : دیکھنا چاہئے کہ علم ہم کو کیا دیتاہے اور ایمان کیا دیتاہے ۔ علم روشنی اور توانائی عطا کرتاہے اور ایمان عشق و امید ، علم وسائل تیار کرتاہے اور ایمان اس کے مقصد ، علم رفتار میں تیزی لاتاہے اور ایمان رخ معین کرتاہے ، علم ” خوب کرسکنا ” اور ایمان ” خوب چاہنا ” ہے علم عقل کی زیبائی ہے اور ایمان روح کی زیبائی ۔”بہرحال شہید مطہری نے اپنی کتابوں میں ایک بڑا حصہ ترقی کی راہ مین انسان کی درونی قوتوں کی شناخت تعلیم و تربیت اور تربیت کے مسائل بیان کرنے میں صرف کیاہے ۔ شہید مطہری کے قیمتی آثار میں ایک کتاب ” شہید اور شہادت ” بھی ہے جس میں انہوں نے شہادت کو ایک مستقل حقیقت قرار دیاہے جو ایک ” نہج و منطق ” اور ایک انتخاب ہے ، علامہ مطہری کی نظر میں ” شہید کی مثال ایک شمع جیسی ہے جس کی عمر ، جلنے ، ختم ہونے اور نور افشانی کرنے میں گزرتی ہے تا کہ دوسری اس کی روشنی اور جلا سے جو خود اس کی زندگی کے خاتمے پر منتہی ہوتی ہے سکون و آرام حاصل کریں اور اپنے کام آسانی سے انجام دے سکیں ۔ شہید مطہری لکھتے ہیں : شہید کی سب سے بڑی خصوصیت شجاعت و دلیری سے بھرپور ” سرفروشی کا جذبہ ” بیدار کرناہے جن قوموں میں سرفروشی کا جذبہ مرجاتاہے شہید ان کے جسموں میں اپنے خون کی لالی دوڑاکر ان کے مردہ جذبوں کو پھر سے زندہ کردیتاہے ۔ لہذا اسلام کو ہمیشہ شہید کی ضرورت ہے کیونکہ اسے ہمیشہ سرفروشی کا جذبہ در کار ہے اور بالآخر اس مرد عظیم نے بھی شہادت کا شیریں جام نوش فرمایا اور اس کے افکار و نظریات اسلامی معاشروں کی رگوں میں ” گرم خون ” کی مانند روان دوان ہوگئے شہید مطہری نے شہادت کے ذریعے نہ صرف ملت کے اندر جذبۂ سرفروشی پیداکیا بلکہ آپ کی شہادت سے مروجہ انحرافات کے درمیان حقائق کی راہیں اور زیادہ روشن ہوگئیں
سخن قراردیاہے اور ” انسان و ایمان ” قرآن میں انسان ” ، ” انسان کامل ” اور ” انسان اور اس کے انجام ” کے عنوان سے مستقل کتابیں لکھی ہیں جن سے اس موضوع پر ان کے ” تبحر فکری ” کا اندازہ ہوتاہے ۔ شہید مطہری علم کو انسانی ترقی و کمال کے اعلی مقاصد تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں وہ اعلی مقاصد جو ایمان کے پرتو میں مشخص ہوتے ہیں ۔ انہوں نے لکھاہے : دیکھنا چاہئے کہ علم ہم کو کیا دیتاہے اور ایمان کیا دیتاہے ۔ علم روشنی اور توانائی عطا کرتاہے اور ایمان عشق و امید ، علم وسائل تیار کرتاہے اور ایمان اس کے مقصد ، علم رفتار میں تیزی لاتاہے اور ایمان رخ معین کرتاہے ، علم ” خوب کرسکنا ” اور ایمان ” خوب چاہنا ” ہے علم عقل کی زیبائی ہے اور ایمان روح کی زیبائی ۔”بہرحال شہید مطہری نے اپنی کتابوں میں ایک بڑا حصہ ترقی کی راہ مین انسان کی درونی قوتوں کی شناخت تعلیم و تربیت اور تربیت کے مسائل بیان کرنے میں صرف کیاہے ۔ شہید مطہری کے قیمتی آثار میں ایک کتاب ” شہید اور شہادت ” بھی ہے جس میں انہوں نے شہادت کو ایک مستقل حقیقت قرار دیاہے جو ایک ” نہج و منطق ” اور ایک انتخاب ہے ، علامہ مطہری کی نظر میں ” شہید کی مثال ایک شمع جیسی ہے جس کی عمر ، جلنے ، ختم ہونے اور نور افشانی کرنے میں گزرتی ہے تا کہ دوسری اس کی روشنی اور جلا سے جو خود اس کی زندگی کے خاتمے پر منتہی ہوتی ہے سکون و آرام حاصل کریں اور اپنے کام آسانی سے انجام دے سکیں ۔ شہید مطہری لکھتے ہیں : شہید کی سب سے بڑی خصوصیت شجاعت و دلیری سے بھرپور ” سرفروشی کا جذبہ ” بیدار کرناہے جن قوموں میں سرفروشی کا جذبہ مرجاتاہے شہید ان کے جسموں میں اپنے خون کی لالی دوڑاکر ان کے مردہ جذبوں کو پھر سے زندہ کردیتاہے ۔ لہذا اسلام کو ہمیشہ شہید کی ضرورت ہے کیونکہ اسے ہمیشہ سرفروشی کا جذبہ در کار ہے اور بالآخر اس مرد عظیم نے بھی شہادت کا شیریں جام نوش فرمایا اور اس کے افکار و نظریات اسلامی معاشروں کی رگوں میں ” گرم خون ” کی مانند روان دوان ہوگئے شہید مطہری نے شہادت کے ذریعے نہ صرف ملت کے اندر جذبۂ سرفروشی پیداکیا بلکہ آپ کی شہادت سے مروجہ انحرافات کے درمیان حقائق کی راہیں اور زیادہ روشن ہوگئیں