امجد صابری، اللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے
تحریر: عمران خان
وطن عزیز پاکستان کی آواز سمجھے جانے والے معروف قوال امجد فرید صابری کو دن دیہاڑے حالت روزہ میں شہر کے بیچوں بیچ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں قتل کیا گیا۔ یہ قتل اسی شہر قائد میں ہوا ہے، جو ایک طویل عرصے سے فوج کے زیرنگرانی رینجرز کی عملداری میں ہے اور پائیدار قیام امن کیلئے اربوں روپے کے لحیم شحیم بجٹ سے یہاں ’’جرائم‘‘ کیخلاف آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن سے عوامی مینڈیٹ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ یہ آپریشن سیاسی بنیادوں پر جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے خدشات اپنی جگہ، مگر نتائج کے حوالے سے بھی یہ آپریشن اتنا ثمر آور نہیں کہ کراچی کا عام شہری احساس تحفظ میں مبتلا ہوجائے۔ خرم ذکی بھی بے ضمیر قوتوں کے ضمیر کو جھنجوڑتے جھنجوڑتے شہادت کا تمغہ سجائے رخصت ہوئے مگر حالات میں کوئی بدلاؤ نہ آیا۔ کفر کی فتویٰ ساز چلتی پھرتی فیکٹریاں کبھی ریلیوں تو کبھی عوامی جلسوں کی صورت میں شہریوں کے سامنے اپنی افرادی قوت کے مظاہرے کرتی رہیں اور امن کے متلاشی حیرت میں مبتلا رہے کہ اگر یہ سڑکوں پر ہیں تو آپریشن کس کے خلاف جاری ہے، یہ وہی سوال ہے جو شہادت سے قبل خرم ذکی پوچھتے رہے یا عون محمد اور حب علی اپنے بابا امجد صابری کی شہادت کے بعد مقتدر قوتوں سے پوچھتے ہیں۔
امجد صابری حقیقت میں بہت بڑے قوال تھے۔ انہیں اسی لئے ہی بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا کہ وہ قوال تھے۔ جو قول کو بار بار دہرائے اسی کو قوال کہتے ہیں۔ امجد صابری محمد و آل محمد (ص) کے وہی قول بار بار دہرا رہے تھے، جو ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد رکھنے والوں کیلئے زہر قاتل ہیں۔ ذکر محمد و آل محمد کے بیان کیلئے چہار جانب ہزاروں دروازے امجد صابری کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ وہ کبھی امام بارگاہ میں سٹیج حسینی پر شہید سبط جعفر کی لکھی منقبت پڑھتا دکھائی دیتا ہے، تو کہیں میلاد کی محافل میں شان محمد و آل محمد بیان کرتا نظر آتا ہے۔ کبھی محرم کی مجلس عزا میں ذکر امام حسین (ع) کرتا ہے، تو کبھی قوالی کی لے پہ فضائل علی (ع) پر دشمنوں کو سر دھننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کہیں جلوس عزا کے راستے میں دودھ کی سبیل لگائے ملتا ہے، تو کہیں ملک گیر ٹی وی چینل پر مدحت آل رسول (ص) بیان کرتے۔
ظاہر ہے ایسی عملی فکر کہاں قابل برداشت تھی، اس سوچ کیلئے جو ذکر محمد و آل محمد (ص) کے خاتمے کی درپے ہے اور جس کی پرورش ایک طویل عرصے سے ریاست کر رہی ہے۔ امجد صابری جیسے ذاکر اور قوال یا فرحان علی جیسے نوحہ اور نعت خواں، خرم ذکی، سبط جعفر، ڈاکٹر حیدر زیدی، علامہ حسن ترابی، مفتی نعیمی اور حکیم سعید جیسے اہل دانش جو تفریق کی نفی کرکے مکاتب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اس سوچ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، جو صرف تفریق اور تکفیر کرنا جانتی ہے، چنانچہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ گوہر نایاب بھی موجود رہیں اور تفریق و تکفیر والی گندی سوچ بھی پروان چڑھے۔ معلوم نہیں 80 کی دہائی سے لیکر تاحال اس سوچ کی ترویج سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے۔؟ اہل پاکستان کی زندگیاں مسلسل اسی سوچ کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، مگر دوسری جانب خبط، خناس بن کر پالیسی سازوں کے سروں میں ایسا سمایا ہے کہ نکلنے کا نام تلک نہیں لے رہا۔
انتہائی سادہ لوح تھا امجد صابری جو ابھی تک اپنے باپ، دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ کا ذکر، اللہ کے رسول اور آل رسول کا ذکر، اولیاء، اوصیاء کا ذکر بلا کسی جھجک کے ہر جگہ کرتا تھا۔ آئے روز ٹی وی چینلز پر آمدورفت کے باوجود کیا نہیں جانتا تھا کہ اس ملک میں اللہ کا ذکر کرنے والوں کو مساجد میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں مارا جا رہا ہے۔ کیا امجد صابری کو خبر نہیں تھی کہ ذکر رسول (ص) و آل رسول (ص) کے جرم میں کہیں لوگوں کو ذبح کیا جا رہا ہے تو کہیں اس ذکر کی راہوں میں بارودی مواد بچھایا جاتا ہے۔ کیا امجد صابری کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ اولیاء کا ذکر کرنے والوں کو وہ کیسے زندہ چھوڑیں گے جو اولیائے اللہ کے مزارات کو بموں سے اڑانا جانتے ہیں، انہیں خون میں نہلانا جانتے ہیں۔ کیا امجد بھول گیا تھا کہ اس کے والد کو سعودی عرب میں آل سعود نے اسی جرم میں زنداں میں ڈال دیا تھا کہ اس نے شان مصطفٰی و جلال مرتضٰی بیان کرنے کی جسارت کی تھی۔ کیا امجد صابری کو خبر نہیں تھی کہ وطن عزیز بھی آل سعود کے زیر دام ہے۔ بار بار عشق رسول کی قوالی وہ کیسے برداشت کریں جو میلاد کے جلوسوں پر اور محفلوں پہ آگ و خون کی بارش کرتے ہیں۔ انہی کے بیچوں بیچ رہ کر امجد صابری نے امام بارگاہ، مسجد، قوالی کے پروگرام میں اور یہاں تک کہ ٹی وی چینل پر یہ کلام پڑھنے کی ہمت کی۔
نہ پوچھئے کہ کیا حسین (ع) ہے
حسن (ع) کا پہلا ہمسفر، علی (ع) کا دوسرا پسر،
امام تیسرا حسین (ع) ہے، نہ پوچھئے کہ کیا حسین (ع) ہے
کرے جو کوئی ہم سری، کسی کی کیا مجال ہے
جہاں میں ہر لحاظ سے، حسین (ع) بے مثال ہے
یہ ہوچکا ہے فیصلہ، نہ کوئی دوسرا خدا
نہ کوئی دوسرا حسین (ع) ہے، نہ پوچھئے کہ کیا حسین (ع) ہے
اسیر شام پر نگاہ کی تو حر بنا دیا
جو مر رہے تھے، ان کو زندگی کا گر سکھا دیا
کہ موت ہر طرف جہاں، کھلا یہ راز بھی وہاں
حیات بانٹتا حسین (ع) ہے، نہ پوچھئے کہ کیا حسین (ع) ہے
شہید کربلا کا غم، جسے بھی ناگوار ہے
وہ بدعمل، بدنسب، اسی پہ بیشمار ہے
ارے او دشمن عزا، تو مر ذرا، لحد میں جا
پتہ چلے گا کیا حسین (ع) ہے، نہ پوچھئے کہ ک
یا حسین (ع) ہے
کرو گے گر مخالفت، غم حسین (ع) کی یہاں
وہ حشر ہوگا، حشر میں کہ الحفیظ ، الاماں
جہاں بھی چھپنے جاو گے، کہیں جگہ نہ پاو گے
کہ ہر جگہ میرا حسین (ع) ہے، نہ پوچھئے کہ کیا حسین (ع) ہے
بھر دو جھولی میری یا محمد (ص)
یا محمد (ص) نورِ مجسم
من کنت مولا فھذا علی (ع) مولا
کچھ نواسوں (ع) کا صدقہ عطا ہو کہ،
جیسے کلام امجد صابری نے یوں پڑھے کہ وطن عزیز کے گھر گھر میں ہی کیا دنیا بھر میں امجد فرید صابری کے مخصوص انداز میں یہ کلام گونجا، حالانکہ ایسے کلمات پاکستان میں قتل ہونے کیلیے کافی ہیں۔ چونکہ وہ قوال تھے، اس لئے محمد و آل محمد کے اقوال کی گردان کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس پیغام سے خوفزدہ قوتوں نے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا، مگر یہ ان کی بھول ہے کہ وہ اس قتل کے ذریعے اس ذکر کو، اس فن کو، محبت و یگانگت پر مبنی اس فکر کو ہمیشہ کیلئے ختم کر لینگے۔ قوالی کی تاریخ سات سو برس پرانی ہے، جسے حضرت معین الدین چشتی غریب نواز نے برصغیر میں متعارف کرایا، جس کے بعد امیر خسرو نے اس فن میں جدت پیدا کی۔ خواجہ معین الدین چشتی کو برصغیر کا پہلا قوال بھی کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان کے مریدین نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ پاکستان میں نصرت فتح علی خان، صابری برادران اور عزیز میاں قوال نے قوالی کو اس قدر توانا کیا کہ دنیا بھر میں یہ فن مقبول ہوا۔ غلام فرید صابری انیس سو چورانوے میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، جبکہ مقبول صابری دو ہزار گیارہ میں چل بسے۔ دونوں بھائی کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں مدفون ہیں۔ لیاقت آباد میں ایک انڈر پاس غلام فرید صابری کے نام سے موسوم ہے۔ اسی لیاقت آباد میں شریف آباد پل کے قریب غلام فرید صابری کے بیٹے مقبول صابری کے بھتیجے اور صابری خاندان کے آخری مشعل بردار امجد فرید صابری کو قتل کیا گیا۔ ہندوستان اور پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا مزار ہو جہاں صابری برادران اور امجد صابری خود حاضر نہ ہوئے ہوں اور پھر دیکھئے کہ امجد صابری نے اپنی شہادت سے ایک دن قبل ٹی وی ٹرانسمیشن میں کس نعت کا انتخاب کیا:
میں قبر اندھیری میں گھبراوں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ(ص)
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ(ص)
روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا
جب وقت نزاع آئے آقا دیدار عطا کرنا
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
میں قبر اندھیری میں گھبراوں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ(ص)
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ(ص)
روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا
جب وقت نزاع آئے آقا دیدار عطا کرنا
مجرم ہوں زمانے کا محشر میں بھرم رکھنا
رسوائے زمانہ ہوں کملی میں چھپا لینا
رسوائے زمانہ ہوں دوزخ سے بچا لینا
منظور دعا میری مقبول خدا کرنا
جب وقت نزاع آئے آقا دیدار عطا کرنا
یہ پڑھتے ہوئے امجد صابری زار و قطار رو رہے تھے، ان کے قریبی رفقا بتاتے ہیں کہ شائد ہی وہ کبھی ایسے روئے ہوں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی شہادت کے بعد کروڑوں پاکستانی روئے ہیں، دیار غیر میں بسنے والے لاکھوں افراد نے اشکبار آنکھوں سے امجد صابری کے جنازے کے مناظر دیکھے۔ ہزاروں وہ لوگ بھی اس ظلم پر دکھی اور افسردہ ہیں جو امجد کے ہم زبان، یا ہم مذہب نہیں تھے مگر امجد کے فن کے قدر دان تھے۔ معلوم نہیں حملہ آور کتنے بدعمل، بدنسب، مردہ دل اور بے ضمیر تھے، جو امجد صابری کی کسی خوبی کی قدر نہیں کر پائے۔ معلوم نہیں کہ تفریق و تکفیر پر مبنی یہ سوچ اور کتنا خون کا خراج پرامن پاکستانیوں سے وصول کرے گی، امجد صابری کے خانوادے کو اللہ تعالٰی صبر عطا کرے، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔