ملک کو درپیش بحران اور اصلاح احوال
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
طورخم بارڈر پر افغان آرمی کے حملے سے پہلے نوشکی میں ڈرون حملہ اور اب کراچی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی تھی کہ قوال امجد صابری کو قتل کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے، دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوچکی ہے۔ دہشت گردوں نے سافٹ ٹارگٹ چننا شروع کر دیئے ہیں، تاکہ چھوٹی کارروائی سے بڑی خبر بن سکے۔ اس سے قبل دہشتگردوں کی کارروائیوں میں تیزی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے نہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ کراچی میں بھی غیر ملکی عناصر کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی تھیں، جن میں پاک فوج اور رینجرز کو بہت سی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ یہ آپریشن اب ایک نئے رخ کی طرف مڑ رہا تھا اور بدعنوان سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے عسکری گروپوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
بعض سیاسی جماعتیں میڈیا پر بدعنوان لوگوں اور بعض عسکری تنظیموں کی سرعام پشت پناہی کرتی بھی نظر آئیں۔ ایسے لوگ نہ صرف اس دھرتی پر دھبہ ہیں، بلکہ ہماری قوم کے مستقبل کے لئے بھی زہریلے اور آستین کے سانپ کی مانند ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ فوج کو قومی سلامتی کے لئے ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے، جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو زیادہ غرض اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات سے ہے یا اپنی لوٹ کھسوٹ کی دولت کو ٹھکانے لگانے سے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں سے اس قوم کو کوئی خاص امید وابستہ نہیں ہے۔ وہ عوام الناس میں اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ لہٰذا فوج کو کسی بھی جماعت کے پریشر میں نہیں آنا چاہیے، کراچی اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے اور اگر دہشت گردوں نے نئی لہر شروع کی ہے تو اسے نئی حکمت عملی کے ذریعے یہیں ختم کر دیا جائے۔
دہشت گردی کے واقعات میں تیزی کے ساتھ ہی ہر طرف یہی ایشو زیربحث ہے۔ دانشور، صحافی، عالم، سیاستدان سبھی امن کی بات کر رہے ہیں۔ کسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو نہیں دیکھا، جو دہشت گر دی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ سب امن کی بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ اچھی اچھی نصیحتیں کرتے نظر آرہے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود دہشت گردی، فرقہ واریت اور دوسرے جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں یکدم تیزی آگئی ہے۔ کوئی جرم ایسا نہیں جو پروان نہ چڑھ رہا ہو۔ بھتہ خوری اور کرپشن جیسے جرائم تو معاشرے میں پہلے ہی عام ہوچکے ہیں۔ آخر اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کو تو نصیحت کر رہا ہے، دوسرے کی خامیوں کی نشاندہی تو کر رہا ہے، لیکن اپنی خامیوں اور غلطیوں پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
یہی صورتحال ملکی انتظامیہ اور حکومتی عمائدین کی ہے۔ جب تک ہم اپنی کوتاہیوں سے نظریں چراتے رہیں گے اور دوسروں کی غلطیوں کا واویلا کرتے رہیں گے، تب تک ہمارے ملک کے حالا ت بہتر نہیں ہوسکتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ جس دن سب نے اپنی اصلاح کی فکر شروع کر دی، اس کے بعد پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اخلاقی، سیاسی اور معاشی اصلاح کا عمل انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، پاکستان میں امن و امان کی فضا بہتر ہو جانے سے ہمہ پہلو بہتری کے امکانات پیدا ہو جائیں گے، سب سے اہم دنیا میں پاکستان کا امیج ایک نمائندہ اسلامی ملک کے طور پر بہتر طور پر سامنے آئے گا۔