تین ستون کہ جن پر سعودی عرب کی بادشاہی کی بنیاد رکھی گئی ہے
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) تین بنیادی رکن ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت جن پر استوار ہے اور وہ علاقے میں اپنے کردار کو نبھا سکتا ہے ؛ پہلا ستون فرزندان آل سعود کا سیاست پر تسلط ہے ۔ دوسرا ستون ، مکتب وہابیت کے بانی محمد ابن عبد الوہاب کے پوتوں کا ایک نیٹ ورک ہے کہ جو حکومت کا حامی ہے کہ جنہوں نے اٹھارہویں صدی میں آل سعود کے ساتھ حکومت کی تقسیم کے سلسلے میں ایک سمجھوتہ کیا تھا ،آل سعود نے اپنے درمیان اور وہابیوں کے ساتھ شادیاں کر کے اپنے اقتدار کو بچا کر رکھا ہے ۔ تیسرا اورآخری ستون ، ،اس ملک کی تیل کی دولت ہے، جس پر خاندان آل سعود یا چند گنے چنے دیگر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ دنیا کے تیل کے بزرگ ترین ذخائر پر قبضہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قبیلوں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لیے اپنے حامی نیٹ ورک پیدا کرنے اور ان کو ساتھ ملائے رکھنے کے لیے اس خاندان کے ہاتھ کھلے ہیں ۔ اس مضمون میں ۱۹۷۴ میں منتشر شدہ فیریڈ ھالیڈی کی کتاب "سعودی بغیر بادشاہی کے”کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؛وہ کتاب کہ جس میں ھالیڈی نے سعودی عرب کے اقتصادی ،اجتماعی ،اور سیاسی ڈھانچے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حکومت کے زوال کی بات کی ہے ۔
اس مضمون میں لکھا ہے
تین بنیادی رکن ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت جن پر استوار ہے اور وہ علاقے میں اپنے کردار کو نبھا سکتا ہے ؛ پہلا ستون فرزندان آل سعود کا سیاست پر تسلط ہے ۔خاندان آل سعود حقیقت میں ایک ایلیگریشی ہے کہ جس کا سعودی عرب پر مکمل کنٹرول ہے ،اور چند ممتاز شخصیتوں کے اجماع کی وجہ سے حجاز کی سیاسی صورتحال پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ عبد العزیز کے ۷۰ فرزند تھے ۔
اس کے بیٹوں اور پوتوں کی تعداد کل مل کر ۲۰۰ ہے جو سعودی حکومت کو چلانے والے سرکل میں ہیں اعدادو شمار سے پتہ چلا ہے کہ آل سعود قبیلے کے مردوں کی کل تعداد سات ہزار افراد ہے جس کی بنا پر خاندان سعود حجاز کی مملکت کی تمام کلیدی پوسٹوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی پوزیشن میں ہے اور وہ حکومت کی ہر سطح پر قابض ہو سکتا ہے ۔ کلیدی وزارتخانے اور اسی طرح علاقے کی ۱۳ گورنریاں خاندان آل سعود کے لیے محفوظ ہیں ۔
دوسرا ستون ، مکتب وہابیت کے بانی محمد ابن عبد الوہاب کے پوتوں کا ایک نیٹ ورک ہے کہ جو حکومت کا حامی ہے کہ جنہوں نے اٹھارہویں صدی میں آل سعود کے ساتھ حکومت کی تقسیم کے سلسلے میں ایک سمجھوتہ کیا تھا ،آل سعود نے اپنے درمیان اور وہابیوں کے ساتھ شادیاں کر کے اپنے اقتدار کو بچا کر رکھا ہے ۔ وہابی نہ صرف اس نظریے کے کہ خاندان آل سعود اسلام کے مدافع ہیں ، مروج رہے ہیں،بلکہ جب کبھی لوگ آل سعود کی سیاست پر تنقید کرتے تھے ، تو وہ مخالفین کے مقابلے میں فتوی صادر کر کے ان کی تنقید کو کچل ڈالتے تھے ۔ مثال کے طور پر عربی انقلابات پر منتہی ہونے والی تبدیلیوں کے دوران سعودی عرب کے مفتیء اعظم نے لوگوں کے مطالبات اور مظاہروں کے خلاف فتوی صادر کر کے اندرونی مخالفین کو سخت دھمکی دی ۔
تیسرا اورآخری ستون ، ،اس ملک کی تیل کی دولت ہے، جس پر خاندان آل سعود یا چند گنے چنے دیگر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ دنیا کے تیل کے بزرگ ترین ذخائر پر قبضہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قبیلوں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لیے اپنے حامی نیٹ ورک پیدا کرنے اور ان کو ساتھ ملائے رکھنے کے لیے اس خاندان کے ہاتھ کھلے ہیں ۔ آل سعود کے خاندان کے ہر شخص کو ان کی خاندان میں جو پوزیشن ہے اس کے پیش نظر تنخواہ ملتی ہے ۔ سعودی عرب نے اپنے خارجی روابط کو عبد العزیز کے حکمران خاندان یعنی خاندان آل سعودکی حفاظت اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے ایک مجموعے کے طور پر استوار کیا ہے ۔
حال ہی میں ایک سرمایہ لگانے والی کمپنی مودی نے سعودی عرب کے اقتصاد کی موجودہ حالت کا اندازہ لگانے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی اقتصادی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ اسی وقت بہت سارے ماہرین نے ابھی سے یہ سوال پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ کیا ھالیڈی نے جو حجاز کے لیے فاسد اور قدامت پرست بادشاہوں کے بغیر کا جو تصور پیش کیا ہے کیا مستقبل قریب میں ہمیں اس کا نظارہ کرنے کو ملے گا ؟
ابراہیم کازرونی جو عراقی الاصل ہیں اور پرنس راب ، جو بین الاقوامی یونیورسٹی ڈنور کے دو اساتید ہیں کا اس مضمون کے لکھاڑی ہونے کے اعتبار سے عقیدہ ہے کہ جانی پہچانی تین ایسی چیزیں ہیں کہ جو مستقبل قریب میں سعودی عرب کے زوال کا باعث بن جائیں گی ۔ اس مضمون میں انہوں نے ان تین میں سے ایک چیز یعنی اقتصاد کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
سعودی عرب دنیا کے تیل کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ہے اور اس اصلی ذخیرے سے حاصل ہونے والا سرمایہسعودی بادشاہی کا اصلی سرمایہ ہے سعودیوں نے گذشتہ چند برسوں میں قابل کنٹرول حد پر تیل کی قیمتوں کو بچائے رکھنے کے لیے کئ بار تیل کی قیمت گھٹائی ہے ۔ اور پیداوار میں اضافہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیداوار کی مقدار ڈیمانڈ سے زیادہ ہو گئی لیکن سعودیوں نے بازار کی گنجائش سے زیادہ تیل کی پیداوار بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ گنجائش سے زیادہ پیداوار کے اس معیوب عمل کی وجہ سے سعودیہ کے لیے بہت بڑی مشکلیں وجود میں آئی ہیں ۔
تیل کے علوم اور انجینیرنگ کی طرف سے انجام دی گئی تحقیقات کی بنیاد پر آئیندہ برسوں میں سعودی عرب تیل کی پیداوار کے ریکارڈ
تک پہنچ جائے گا ، لیکن آیندہ دہائی میں اس کے تیل کی صادرات میں شدید کمی آئے گی ۔ ان تحقیقات کی بنیاد پر سال ۲۰۲۸ میں سعودی عرب کے تیل کی صادرات میں شدید کمی آئے گی جب کہ وہ وقتآنے میں ابھی ۱۳ سال باقی بچے ہیں ۔
یہاں ایک دوسرا کلیدی سبب یہ ہے کہ پیداوار داخلی مصرف کے بجائے صادرات کے لیے ہو رہی ہے تگزاس کے تیل کے ادارے کے زمین شناس جفری جی برون اور ڈاکٹر سم فوچر نے جو تیل کی صادرات کا ماڈل تیار کیا ہے اس کی بنا پر صادرات کی مقدار صرف پیداوار کے نرخ میں اضافے کی بنا پر نہیں بڑھائی جاتی بلکہ داخلی مصرف کی مقدار کے سائے میں صادرات کی مقدار میں اضافہ کیا جاتا ہے اور کسی ملک کی صادرات کے حجم کو طے کرنے والی یہی چیز ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کی آمدنی کہ جس کا اسی فیصد تیل کی صادرات پر منحصر ہے دن بدن کم ہو رہی ہے ۔سعودی عرب کی آبادی میں اضافہ داخلی مصرف میں اضافے اور صادرات میں کمی کی وجہ سے آمدنی میں کمی کا سبب ہو گا ۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ سال۲۰۳۰ میں سعودی عرب کی موجودہ آبادی کہ جو ۲۹ ملین ہے بڑھ کر ۳۶ ملین ہو جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب علاقے میں تیل کا سب سے بڑا مصرف کرنے والا ملک ہے اس طرح کہ اس ملک مصرف میں داخلی تقاضے میں ۷ اعشاریہ ۵ فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔
آبادی بڑھ جانے سے داخلی تقاضے کا حصہ اس ملک کے تیل کی پیداوار پر اپنا سایہ ڈالے گا اور آیندہ دس سالوں میں اس کی وجہ سے تیل کی صادرات میں شدید کمی واقع ہو گی ۔
سعودی عرب کی ایک اور اقتصادی مشکل تیل کے بعد کے اقتصاد کے لیے تیار ہونا ہے ۔ بہت سارے ملک اس گرانقیمت قدرتی ذخیرے سے اپنی وابستگی کو ختم کرنے کے چکر میں بہت ساری مشکلات یا دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں ،اگر چہ سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ تیل سے ہٹ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے منصوبوں پر وہ عمل کر رہا ہے ۔ لیکن بہت سارے گواہ موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب تیل کے ساتھ اپنی وابستگی سے آسانی کے ساتھ خارج نہیں ہو سکتا ۔
ایک اور مشکل سعودی عرب کا قرضوں کے نتیجے دبا ہونا ہے سعودی عرب اس وقت قرضے لینے میں جٹا ہوا ہے جس سے آیندہ برسوں میں یہ ملک قرضوں کے نیچے دب جائے گا ،ایسا ایسی حالت میں ہو گا کہ اس ملک کی تیل سے ہونے والی آمدنی کم ہو جائے گی ۔دوسری طرف وہابیت کی آیڈیالوجی کی ترویج کے لیے سعودیوں نے جو مالی حمایتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کی جو وہ حمایت کر رہا ہے اس کے جاری رہتے ہوئے اس ملک کے بیرونی کرنسی کے ذخیرے اور آمدنی میں دن بدن کمی آتی رہے گی ۔
سعودی عرب کو شدید اقتصادی رکود کا سامنا ہے اسی وجہ سے اس نے گیس تیل اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے اور رفاہی حکومت کہ سعودی عرب جس کے خواب دیکھ رہا تھا وہ ختم ہونے والی ہے ،اور اس چیز سے سعودی عرب میں عوامی بے چینی بڑھ سکتی ہے ۔
آخر میں ہم سعودی عرب کے ارزی ذخائر کی بھاری مقدار میں آنے والی کمی کی طرف اشارہ کر دینا چاہتے ہیں ،اگست ۲۰۱۴ میں سعودی عرب کے ذرمبادلہ کے ذخائر 7370کروڈ ڈالر تھے وہ اس سال مئی میں کم ہو کر6720کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں یعنی متوسط طور پر ہر ماہ ان ذخائر میں 120کروڑ ڈالر کی کمی ہو رہی ہے ۔
یہی رفتار چلتی رہی تو سال ۲۰۱۸ میں یہ ذخائر2000کروڑ ڈالر سے بھی کم رہ جائیں گے یہ ایسی عاقبت ہے کہ جو عالمی مالی بازار میں تبدیلی کی وجہ سے مقررہ وقت سے پہلے سعودی عرب کے حصے میں آ سکتی ہے اور اس ملک کے سرمائے کے دھواں بن کر اڑنے کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے ۔
اس بنا پر سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں آیندہ ۱۲ سال میں کمی آنے کے پیش نظر ، اور اس ملک پر قرضے کی صورتحال اور ارزی ذخائر میں کمی کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی بادشاہی کا کیا حشر ہونے والا ہے ؟ اس مضمون کے لکھنے والوں کا فیریڈ ھالیڈی کے قاعدے کی روشنی میں عقیدہ ہے کہ سعودی عرب کا انجام صرف اور صرف زوال ہے ۔