کراچی میں فوجی گاڑی پر حملہ کیس کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ، پیشرفت سمیت دیگر تفصیلات
رپورٹ: ایس جعفری
کراچی کے علاقے صدر میں پاک فوج کی گاڑی پر حملہ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، تحقیقاتی اداروں نے حملہ آوروں کے روٹ کی فوٹیج حاصل کرلی ہے، ابتدائی تفتیشی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے ممکنہ طور پر پستول کے ساتھ بلٹ کیچر استعمال کیا، جائے واردات سے پستول کے خول نہیں ملے، تفتیشی حکام نے پارکنگ پلازہ کے سی سی ٹی وی کیمرے بند ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، پلازہ کے کنٹرول روم سے زیر حراست 2 افراد سے سی سی ٹی وی کیمرے بند ہونے کے حوالے سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے صدر میں منگل کے روز پاک فوج کی گاڑی پر حملہ کرکے دو فوجی جوانوں کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کے روٹ کی فوٹیج تحقیقاتی اداروں نے حاصل کرلی ہے۔ فوٹیج کے مطابق موٹر سائیکل سوار دو دہشت گردوں نے پیپلز چورنگی سے فوجی گاڑی کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ دہشت گردوں نے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اور پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے۔ ایک مقام پر فوج کی گاڑی رکی تو دہشت گردوں نے بھی اپنی موٹر سائیکل وہیں روک دی۔ فوٹیج حاصل کرنے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کا دائرہ مزید بڑھا دیا ہے۔
سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کے بعد تحقیقات جاری ہے، جائے وقوعہ اور اطراف سے کی گئی کالز کی جیو فینسنگ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، پولیس نے جائے وقوعہ سے حاصل کئے گئے شواہد فارنزک لیب بھجوا دیئے ہیں، جبکہ دوسری جانب بند کیمروں کے معائنے کرنیوالی ٹیم کو لینے کے دینے پڑگئے، شہد کی مکھیوں نے ٹیکنیکل ٹیم کے ممبر پر حملہ کر دیا، صفائی نہ ہونے سے کیمرے کے پاس گھر بنا لیا تھا۔ تفتیشی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے ممکنہ طور پر پستول کے ساتھ بلٹ کیچر استعمال کیا، جائے واردات سے پستول کے خول نہیں ملے۔ شہید اہلکاروں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اہلکاروں کے اوپری حصے کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ ابتدائی تفتیشی رپورٹ کے مطابق ملٹری پولیس کی گاڑی معمول کے گشت پر تھی کہ تقریباً ساڑھے تین بجے اہلکار صدر میں واقع پارکنگ پلازہ تک پہنچے، تو دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار دہشت گردوں نے ملٹری کی گاڑی پر فائرنگ کر دی، حملہ آوروں نے ہیلمٹس پہنے ہوئے تھے، نائن ایم ایم پستول سے فائرنگ چار سے چھ فٹ کے فاصلے سے کی گئی۔ گاڑی میں سوار دونوں اہلکاروں کو سر سینے اور کندھے میں گولیاں لگیں۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق جائے واردات سے کوئی بھی خول نہیں ملا، امکان ہے کہ دہشت گردوں نے بلٹ کیچر کا استعمال کیا یا موقع واردات سے خول چن لئے گئے ہوں۔ اس سے قبل شاہ لطیف ٹاون میں ڈی ایس پی مجید عباس کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا، جس میں شواہد اکٹھے کرنے والوں کو بھی پستول کے خول نہیں ملے تھے، جبکہ بفرزون میں نمک بینک کے قریب نمازِ جمعہ کے بعد اہل تشیع باپ بیٹے اور ایک راہگیر کو ٹارگٹ کیا گیا تھا، اس واقعے میں بھی تفتیشی حکام کو خولوں کا نام و نشان بھی نہ ملا تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ ملٹری پولیس پر حملہ یکم دسمبر 2015ء ایم اے جناح روڈ حملے سے مماثلت رکھتا ہے، جس میں بھی دو ملٹری پولیس کے جوانوں کو شہید کیا گیا تھا۔ دوسری طرف شہید اہلکاروں کا پی این شفا میں پوسٹ مارٹم کیا گیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اہلکاروں کے سر اور جسم کے اوپری حصے کو نشانہ بنایا گیا، سر میں لگنے والی گولیاں موت کا باعث بنیں۔ فوجی جوانوں پر فائرنگ کے واقعے میں تھانوں کی حدود کا تعین نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق دہشتگردوں نے بریگیڈ تھانے کی حدود میں فائرنگ شروع کی، شہداء کی گاڑی کچھ فاصلے پر صدر تھانے کی حدود میں دیوار سے ٹکرائی۔
پاک فوج کے 2 جوانوں کے قتل کا مقدمہ دہشت گردی ایکٹ 7:ATA کے تحت صوبیدار محمد اقبال کی مدعیت میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ گارڈن میں درج کر لیا گیا، جبکہ واقعے کی تفتیش کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سول لائن کو منتقل کر دی گئی ہے۔ مقدمے میں انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ تفتیشی حکام نے پارکنگ پلازہ کے سی سی ٹی وی کیمرے بند ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جس وقت پارنگ پلازہ کی عقبی گلی میں پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا، اس وقت پارکنگ پلازہ کی عمارت میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے ڈیڑھ سے 2 گھنٹے کیلئے بند تھے، جس کے باعث مذکورہ کیمرے دہشت گردی کی واردات کی ریکارڈنگ محفوظ نہیں کرسکے، جس پر تحقیقاتی اداروں نے پارکنگ پلازہ کے کنٹرول روم سے 2 آپریٹرز سہیل اور فہیم کو بھی حراست میں لے لیا ہے، جن سے اس حوالے سے تفتیش کی جا رہی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے اڑھائی سے ساڑھے 4 بجے تک کیوں بند رکھے گئے تھے۔
دوسری جانب قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے سرچ آپریشن کے دوران متعدد افراد کو حراست میں لے لیا ہے، زیرِ حراست افراد میں ایم کیو ایم کا سابق علاقائی ذمہ دار بھی شامل ہے، ملزمان کو تفتیش کیلئے نامعلوم مقام منتقل کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں فائرنگ سے شہید ہونے والے پاک فوج کے جوانوں کو قومی اعزاز کے ساتھ آبائی علاقوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ کے موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی، تدفین میں اہل خانہ، رشتے داروں، فوجیوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نوشہرو فیروز میں آبائی گاﺅں میں سپرد خاک کئے گئے شہید عبدالرزاق کی تین برس قبل شادی ہوئی تھی اور وہ ایک بچی کے والد تھے۔ عبدالرزاق نے سوگواران میں باپ، دو بہنوں اور بھائیوں کو چھوڑا ہے۔ سپاہی خادم ح
سین ابڑو کو بھی دادو میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ شہید خادم حسین نے سوگواران میں بیوی اور چار بھائی چھوڑے ہیں۔