مضامین

بھوک ہڑتال کے ثمرات اور موجودہ صورتحال

تحریر: حسن نقوی

تمام دوستوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو تعزیت پیش کرنا چاہوں گا تمام ان گھرانوں کو جنہوں نے اپنے پیاروں کو کوئٹہ سول ہسپتال بم دھماکے کے نتیجہ میں دنیا فانی سے رخصت کردیا۔اور سلام ہے ان پر جنہوں نے اپنی اولادوں کو اس عرضِ پاک وطن پر قربان کیا۔ ۱۴ اگست کا دن عنقریب گزرا ہے تمام اہلِ وطن نے جشنِ آزادی منایا۔ آج ستر(۷۰) سال بعد بھی اگر ہم باقی ہیں تو یہ انہیں شہیدوں کے پاک خون کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک آج بھی باقی ہے۔ چاہے وہ آرمی پبلک کے شہید پھول ہوں یا ہزاراکمیونیٹی کے وہ باہمت لوگ جو اس ملک سے محبت کرتے تھے اور پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتے تھے۔ خدا ان سب کی مغفرت کرے اور ان کے گھر والوں کو صبرِ جمیل نصیب کرے۔

کوئٹہ میں حالیہ میں ہونے والی دہشتگردی کوئی چھوٹا سانحہ نہیں بلکہ ملک کی تاریخ کا وہ بدترین باب ہے جس میں وکلاء کی پوری ایک نسل کو صفحہ حستی سے مٹا دیا۔ آخر ان تمام لوگوں کا قصور کیا تھا؟ ان کا قصور تھا پاکستانی ہونا؟ آخر کب تک ہمارے وکلاء ، ڈاکٹرز ، انجنیئرز کو نشانہ بنایا جائے گا؟ آخر ہم کب تک اسی طرح لاشے اٹھاتے رہیں گے؟۔ شہادت افتخار است۔ مگر ملک و قوم کا معمار ، مستقبل اس دہشتگردی کے نتیجہ یں ضایع ہو رہا ہے۔یہ حکومتِ وقت کے لیے لمحہِ فکریہ ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان تمام عسکری اداروں اور خفیہ اجینسیز کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان کی اطلاعات اتنی کمزور ہیں کہ انہیں کچھ پتا ہی نہیں؟

ملک میں جاری ایک عرصہ سے دہشتگردی کے خلاف قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے تھے جسے نوے(۹۰) روز بعد احتجاجی مظاہرہ کی شکل دے دی گئی ہے۔پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے علامہ صاحب کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور آپ کے مطالبات کو آئینی تسلیم کیا۔ایک بات واضح ہے کہ ملک کے بیشتر لوگ امن پسند ہیں اور ملکِ خدادِ پاکستان میں خوشحالی اور ترقی چاہتے ہیں۔ اور جو افراد ایسا نہیں چاہتے تو ان کے بھی مکروہ چہرے اس بھوک ہڑتال کے نتیجہ میں واضح ہو چکے ہیں۔

اکثر لوگوں نے پوچھا کہ اس بھوک ہڑتال کا فائدہ کیا ہوا؟ چلیں وہ بھی بتا دیتا ہوں جو میں نے ایک جامع تحریر سے نکالے ہیں:
۱۔ عوام کا علماء پر اعتماد بڑھا ہے۔
۲۔پہلے علماء عوام کو حکم دیتے تھے اور عوام انکی اطاعت کرتی تھی اور جلسے جلوس نکالتی تھی اور علماء بھی ان میں شامل ہوتے۔ لیکن اب ایک عالم دین نے اپنی ذات سے یہ عمل شروع کیا جسے عوم نے بھی پسند کیا اور اس بات پر بھی یقین حاصل ہوا کہ علماء قربانیاں دینے والے ہیں۔ اور اسی بھوک ہرتال کی وجہ سے علماء کی عزت و اکرام میں اضافہ ہوا۔
۳۔ اس کی وجہ سے شیعہ قوم کے قتل عام میں کافی حد تک کمی آئی۔اور اس کے ساتھ دیگر پاکستانیوں کے قتل عام کو ناانصافی قرار دیا گیا۔
۴۔ شیعہ جماعت پر لگنے والے فرقہ واریت کے الزامات کا خاتمہ اور ایک واضح پیغام دنیا کو پہنچا کہ شیعہ عوام پرامن ہے۔
۵۔ پہلی بار میڈیا نے شیعوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو بیان کیا۔
۶۔ ملت کی خواتین نے بھرپور مظاہرے کیے۔
۷۔ اس کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی تکفیریوں کو ہوئی۔ ہمارے لیے یہ ہی کافی تھا کہ ان تکفیریوں کو ہم اپ سیٹ کر دیں۔
۸۔ پہلی بار تمام سیاسی جماعتیں شیعوں کے حقوق کے لیے بول پڑیں جو کہ تکفیریوں کے لیے سوئی کی طرح چبھنے والی بات تھی۔
۹۔ تمام مطالبات کو آئینی قرار دیا گیا۔
۱۰۔ اس کی وجہ سے شہداء ملتِ جعفریہ کو شہداء پاکستان کہا گیا۔
۱۱۔ کچھ مطالبات پر عمل ہوا جس میں ڈیرہ اسماعل خان اور پاراچنار کا معاہدہ قابلِ ذکر ہے۔

ان نکات نے پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔احتجاج کو ایک لمبے عرصہ تک جاری رکھنا اور عوام کو اعتماد میں لینا ایک بڑا چیلنج تھا۔مگر اللہ کی ذات پر یقین اور توسل ہی اس کامیابی کا ایک اہم وسیلہ تھے۔لوگ باہر نکلے اور ایک واضح پیغام دیا کہ ہم تکفیریت کے خلاف ہیں۔ احتجاج میں آنے والا خواہ کسی بھی جماعت کا ہو ضروری یہ ہے کہ کیا وہ تکفیریت کے خلاف ہے؟ اگر ہاں تو پھر وہ پاکستان میں امن و سلامتی کا داعی ہے۔موجودہ حکومت کو سنجیدگی اختیار کرنے چاہیے اور نیشنل ایکشن پلان پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ اور ملک میں دہشتگردی کرنے والے عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button